مولانا فضل الرحمن کا دھرنا جاری ہے اور وہ ہر روز مسئلہ کشمیر ‘کرتار پور راہداری‘ تحفظ ناموس رسولؐ قانون اور ملکی معیشت کے حوالے سے عمران خان کی خوب درگت بنا رہے ہیں ۔مولانا عرصہ دراز تک بطور چیئرمین خارجہ امور کمیٹی و امور کشمیر کمیٹی(قومی اسمبلی) خدمات انجام دے چکے‘ ان کی غیر معمولی صلاحیتوں اور خدمات کے حوالے سے پاکستان کے سابق سفارت کارکرامت غوری نے اپنی کتاب ’’بار آشنائی‘‘ میں اظہار خیال کیاہے ۔ کرامت غوری لکھتے ہیں! ’’مولانا فضل الرحمن (بحیثیت چیئرمین خارجہ اُمور کمیٹی)کویت کے سرکاری دورہ پر تشریف لائے۔ ان کی آمد سے چند دن پہلے میرے نام وزیر اعظم بے نظیر کا ایک خصوصی خفیہ تار موصول ہوا جس میں وزیر اعظم نے میری توجہ خاص طور پر مولانا کے منصب عالیہ کی طرف مبذول کرواتے ہوئے مجھے حکم دیا اور سخت تاکید کی کہ مولانا ایک اہم مشن پر کویت بھیجے جا رہے ہیں تاکہ وہ کویتی پارلیمان کے کلیدی اراکین کو مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف سے آگاہ کر سکیں اور اس کے لئے کویتی حکومت اور دیگر خلیجی ممالک کی ہمدردی اور حمایت حاصل کریں۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ٹھیک آدھ گھنٹہ گزارنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کام کے لئے ان کا انتخاب بھی دانائی نہیں تھی۔ہوا یوں کہ مولانا کے دورہ کی پہلی صبح میں انہیں کویتی پارلیمان کی خارجہ امور کمیٹی سے ملاقات کے لئے لے گیا۔ کویت کی پارلیمان خلیجی ممالک میں اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ ہے۔ خلیج کے کسی اور ملک میں اس نوع کی آزاد اور کھلے بندوں منتخب ہونے والی پارلیمان کا وجود نہیں ہے۔ اگرچہ حق رائے دہی صرف ان کویتیوں کو حاصل ہے جو خود یا ان کے اجداد بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں کویت کی ریاست قائم ہونے کے وقت ریاست کے اصل شہری تھے۔ کویتی پارلیمان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین ہی ان کے ہم منصب اور ہم رتبہ تھے۔ ڈاکٹر جاسم الصقران کا نام نامی تھا۔سترپچہتر کے پیٹے میں تھے لیکن انتہائی مستعد اور چاق و چوبند۔‘‘ ’’مولانا فضل الرحمن کا سب نے ہی بہت تپاک سے استقبال کیا اور پھر ہم سب اس کانفرنس روم میں جا کر بیٹھ گئے جو اس قسم کی ملاقاتوں کے لئے مخصوص تھا۔ جاسم الصقر صاحب نے مولانا کو باضابطہ اور خوشگوار الفاظ میں خوش آمدید کہنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لئے وارد ہوئے ہیں وہ بیان کریں لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ کشمیر پر پاکستانی موقف میں حاضرین کو آگاہ کروں۔مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا خود اس فریضے کی ادائیگی سے کیوں جان چھڑانا چاہ رہے ہیں لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ مولانا کو یاد دلائوں کہ وہ پاکستان کے خصوصی ایلچی بن کر وارد ہوئے ہیں اور وزیر اعظم بے نظیر کی خصوصی ہدایات کے بموجب میں انہیں اس ملاقات کے لئے لے کر گیا تھا۔‘‘ ’’مولانا کچھ قائل ہوئے کچھ نہیں ہوئے لیکن خاموشی جب بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کراردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کئے جن کا میں انگریزی میں ترجمہ کرتا رہا لیکن پھر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مولانا نفس مضمون کی طرف نہیں آ رہے ہیں اورمعزز سامعین بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا حالات کومزید بگڑنے سے بچانے کی نیت سے میں نے لقمہ دیا کہ مولانا اگر پسند فرمائیں تو گفتگو میں آگے بڑھائوں اور یوں لگا جیسے مولانا اسی لمحے کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوراً ہامی بھر لی اور سامنے میز پر رکھے ہوئے کیک پیسٹری کی طرف رجوع ہو گئے اور پھر ایک گھنٹے تک ان کی طرف سے میں ہی بولتا رہا ‘‘ ’’اس ذمہ داری سے فارغ ہو کر ہم باہر نکلے تو مولانا نے گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھتے ہی مجھ سے ایک نئی فرمائش کر دی اور فرمائش یہ تھی کہ ان کی ملاقات کویت کی بین الاقوامی شہرت کی حامل فلاحی تنظیم بیت الزکوٰۃ کے صدر اور روح رواں جاسم الحجی صاحب سے کروا دی جائے۔مولانا وزیراعظم بے نظیر کے خصوصی ایلچی بن کر تشریف لائے تھے۔لہٰذا یہ کیسے ممکن تھا کہ میں انہیں حجی صاحب کے پاس لے جانے سے انکار کر دیتا لیکن میں نے مولانا کو پوری وضاحت سے بیت الزکاۃ کے طریقہ کار کے متعلق بریفنگ دی اور سوال کیا کہ آیا وہ اپنے ہمراہ متعلقہ منصوبے کی تفصیلات لے کر آئے ہیں؟ مولانا نے مجھے اطمینان دلایا کہ ان کے پاس سب کچھ تھااور وہ پوری طرح کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئے تھے۔لیکن دوسری صبح ملاقات کے دوران جب حجی صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ وہ اپنے مدرسے کی جس توسیع کی بات کر رہے ہیں اور جس کے لئے انہیں بیت الزکاۃ سے امداد کی ضرورت ہے اس کے لئے ضروری دستاویزی کارروائی انہوں نے کر لی ہے اور ان کے پاس ضروری کاغذات ہیں یا نہیں ؟تو مولانا نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس سوائے اعداد و شمار کے جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے کاغذ پر قلمبند کئے ہوئے تھے اور کوئی تفصیل نہیں تھی۔‘‘ ’’مولانا کا یہ اعتراف اور ان کا یوں خالی ہاتھ اس میٹنگ کے لئے پایا جانا میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا۔ حجی صاحب نے ان کا بہت تپاک سے خیر مقدم کیا تھا لیکن مولانا نے اپنے رویہ سے ان کے لئے بھی شرمندگی کا سامان کیا تھا۔ انہوں نے معذرت کی کہ ضروری دستاویزی کارروائی کی عدم موجودگی میں وہ مولانا کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن مولانا کی طرف سے میرے لئے اس سے بڑی شرمندگی کا سامان تو اسی روز شام کو فراہم ہوا!‘‘ ’’ہوا یوں کہ مولانا کے اعزاز میں اس شام کویت کے ایک معروف ادارہ Kuwait Propagation Societyنے ایک تقریب کا انعقاد کیا تھا۔ یہ انجمن جسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل تھی۔ کویت میں مقیم ہزار ہا غیر مسلموں میں تبلیغ کے فرائض سرانجام دیتی تھی لیکن بہت سلیقے سے۔ اس کے مرکزی دفتر میں ایک بڑی لائبریری تھی جس میں بے شمار زبانوں میں اسلام کے بنیادی عقائد کے متعلق لٹریچر موجودرہتا تھا۔ یہ سب کام خوش اسلوبی سے ہوتا تھا اور اس میں کسی جبر کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ادارہ کے کرتا دھرتا سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب تھے جن میں سے زیادہ تر مغربی ممالک کی جامعات سے فارغ التحصیل تھے۔تقریب کے لئے جو وقت مولانا کو دیا گیا تھا اس وقت تک وہاں سو ڈیڑھ سو لوگ جمع تھے۔ میری مصروفیت کہیں اور تھی اور اس وجہ سے میں نے منتظمین سے معذرت کر لی تھی لیکن وقت مقررہ سے ایک گھنٹے بعد جس تقریب میں مدعو تھا وہاں میرے لئے مولانا کے میزبانوں کا بہت پریشانی کا فون آیا کہ وہ سب ان کا انتظار کر رہے ہیں لیکن مولانا کا کوئی پتہ نشان نہیں ہے اور وہ تقریب کے لئے ایک گھنٹہ گزرنے کے باوجود نہیں پہنچے ہیں۔‘‘ ’’مولانا کے ہراساں و پریشان میزبانوں سے فون پر جتنی معذرت میں کر سکتا تھا وہ میں نے کی اور انہیں اطمینان دلانے کے لئے یہ بھی کہا کہ میں جلداز جلد مولاناکو ڈھونڈ لانے کی کوشش کروں گا اور ان کا جلسہ درہم برہم نہیں ہونے دوں گا۔ میں خود جلسہ گاہ کی طرف روانہ ہوا لیکن اس سے پہلے فون پر میں نے اپنے ایک افسر کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ مولانا کا سراغ لگائے اور کویتی پروٹوکول کو بھی خبر دی کہ مولانا لاپتہ ہو گئے ہیں اور درخواست کی کہ ان کا اتا پتہ معلوم کرے۔‘‘ ’’آدھ گھنٹے کے بعد جب میں جلسہ گاہ پہنچ چکا تو کویتی پروٹوکول کے ایک ذمہ دار افسر نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ مولانا شہر سے باہر پٹھانوں کے ایک ڈیرے میں ضیافت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کچھ دیر بعد میرے اپنے ماتحت نے فون پر یہ خبر سنائی کہ مولانا ضیافت تو اڑا رہے تھے لیکن ساتھ میں اپنے مدرسوں کے لئے چندہ بھی جمع کر رہے تھے۔‘‘ ’’دو ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے جب مولانا وہاں جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو میزبان تو بیچارے کچھ نہ کہہ سکے لیکن میں نے مولانا سے صاف الفاظ میں شکوہ کیا کہ انہوں نے اس مصروفیت پر اپنی ذاتی مصروفیت کو جس کا نہ مجھے پہلے سے علم تھا اور نہ ہی کویتی میزبانوں کو ترجیح دے کر نہ صرف اپنے آپ کو شرمندہ کیا تھا بلکہ میرے ساتھ ساتھ ملک و قوم کو بھی ۔‘‘ ’’مولانا وہاں تو سب کے سامنے کچھ نہ کہہ سکے لیکن پاکستان واپس پہنچنے کے بعد انہوں نے بے نظیر سے شکایت کی کہ سفیر نے ان کے احترام میں کسر چھوڑی تھی لیکن ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ان کے وار کرنے سے پہلے میں اپنی حفاظت کا بندوبست کر چکا تھا اور ان کی شکایت سے پہلے میری تحریری شکایت جس میں میں نے پورے واقعے کا تفصیل سے ذکر کیا تھا‘ وزیر اعظم تک پہنچ چکی تھی۔ میری پیش بندی میرے کام آ گئی۔‘‘