یورپین پارلیمنٹ نے اپنے ممبران اور ان کے سٹاف کو مسئلہ کشمیر بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ’’کشمیر۔ جھگڑوں کے 70سال‘‘ کے عنوان سے رپورٹ جاری کر دی ہے۔یورپی پارلیمنٹ کی رپورٹ نے سینکڑوں پردہ پوش حقیقتوں کے نقاب الٹ دیے ہیں۔ایک باضمیر اور غیرت مند انسان کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ رپورٹ کافی ہے لیکن مردہ دل لوگ اس پر بھی خاموش تماشائی کا کردار نبھاتے نظر آئیں گے ۔بھارت نے جو بھی حربہ استعمال کیا وہ الٹا اس کے سر ہی پڑا۔ حریت رہنمائوں کو نظر بندی کے باعث بے پناہ عوامی ہمدردی ملی ، جس بنا پر مخالف کیمپ میں کھلبلی مچی رہی۔ کشمیریوں کو پاکستان سے دور کرنے کے باوجود کشمیری عوام کی پاکستان کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ پورے کشمیر میں پاکستانی ٹی وی چینلز ہی نظر آتے ہیں۔ جس سے کٹھ پتلی انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کمشنر سرینگر نے تحریری حکم نامہ جاری کر کے کیبل آپریٹرز کو 30کے قریب پاکستانی چینلز بند کرنے کا کہا ہے جو کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں بھارتی بربریت‘ دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تفصیلی بحث کی ہے اور دنیا کو باور کرایا ہے کہ بھارت کی 7لاکھ درندہ صفت فوج کشمیریوں کی نسل کشی کے درپے ہے۔ لہٰذا اسے انسانیت کی تذلیل کرنے سے روکا جائے‘ در حقیقت کشمیریوں کی تحریک آزادی مزاحمت میں تب ہی تبدیلی ہوئی جب بھارتی فوج نے ان پر عرصہ حیات تنگ کیا۔ پھر گھر گھر سے حریت کے متوالے سربکف ہو کر نکلے جب ہر کوچہ و گلی میں ان کا چرچا ہوا تو کچھ وہ لوگ بھی اس جانب متوجہ ہوئے جن کی زندگی آوارگی اور عیش و عشرت میں گزری تھی انہوں نے سرمایہ فراہم کر کے حریت رہنمائوں کی مدد کی اور یوں قافلہ حریت آج پورے کشمیر کی آواز بن چکا ہے۔ اس وقت کشمیر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو بھارتی دہشت گرد فوج کی دست برد سے محفوظ ہو۔ بارود، آگ اور خون کا سیل بلا تھمنے کو نہیں آ رہا۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کر چکی ہے جس میں اکثریت خواتین کی ہے، بھارتی افواج نے جنسی تشدد کو بھی بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جس کا ثبوت کشمیر میں 11ہزار خواتین کا سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں زیادتی کا نشانہ بننا ہے۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ بھارتی درندے معصوم بچیوں کو بھی زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ رواں سال جنوری میں 8سالہ ننھی آصفہ کو نشہ آور ادویات کھلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، جس پر بھارت کے اندر عوام میں غم و غصہ پایا گیا اور ہندو قوم نے بھی اس پر برملا مودی حکومت کو لعن طعن کیا اور 7لاکھ درندہ صفت وحشی فوج کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کی مہم بھی چلی لیکن چند دنوں کے احتجاج کے بعد وہ مہم بھی دم توڑ گئی۔ یورپی ممالک میں بھی آصفہ کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی گئی۔ مودی کے بیرون ملک دورے پر اوورسیز پاکستانیوں‘ کشمیریوں اور سکھوں نے معصوم بچی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے صدائے احتجاج بلند کی۔ بھارت 70سال سے کشمیریوں کا استحصال کر رہا ہے پہلے وہ بڑی چالاکی سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے کر گیا لیکن جب اسے اس بات کا اندازہ ہوا کہ وہ اس پلیٹ فارم پر اپنے موقف کو سچا ثابت نہیں کر سکتا تو اس نے مسئلہ کشمیر کو طول دینے کے حربے استعمال کرنا شروع کر دیے۔21اپریل 1948ء کو برطانیہ ‘ بلجیم ‘ کینیڈا ‘ کولمبیا اور امریکہ کی قرار داد پر اقوام متحدہ نے استصواب رائے کے لیے باقاعدہ منتظم مقرر کرنے کی منظوری دی لیکن بھارت نے مکارانہ چالیں چل کر نمائندہ مقرر کرنے کے راستے میں روڑے اٹکائے۔نوبت باایں جا رسید کہ 70سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کشمیر پر منتظم مقرر نہیں کیا جا سکا لیکن اس کے باوجود عالمی برادری بھارت کے ساتھ راہ و رسم مضبوط کرنے کی منصوبہ بندی میں لگی ہوئی ہے۔ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے واشنگٹن میں امریکہ سٹریٹجک لیڈر شپ اور پارٹنر شپ فورم کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ کو بھارت کے ساتھ مل کر مضبوط بلاک تشکیل دینا چاہیے۔ قطع نظر دنیا کی نظروں میں وہ اچھا ہو یا برا ۔ امریکہ جیسا ملک جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا چیمپئن بنا ہوا ہے اسے بھارت کی کشمیر میں درندگی نظر کیوں نہیں آتی؟ اس خطے کے غیر مستحکم ہونے کی سب سے بڑی وجہ بھارت کی کشمیر میں مداخلت ہے۔امریکہ نے 70سال میں کشمیریوں کو بھارت کی دہشت گردی کے عفریت سے بچانے کی ایک بار بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی‘اور تو اور امریکہ نے آج تک اس ڈر سے کہ بھارت کہیں اس سے ناراض نہ ہو جائے بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کی بھی مذمت نہیں کی ۔ جبکہ دوسری جانب بازوئے قاتل تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی جانیں بازار کی بے مایہ جنس بن کے رہ گئی ہیں۔ آئے دن اجتماعی طور پر کشمیریوں کو قتل کیا جاتا ہے ۔جنازوں پر اندھادھند آنسو گیس پھینکی جا تی ہے جبکہ ریاست کی پاسبانی کے دعویدار قاتلوں کے ہمنوا بن چکے ہیں جس بنا پر کشمیریوں کی نسل کشی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اقوام متحدہ کی کشمیر بارے رپورٹ پر بھارتی پروپیگنڈے کی بھر پور مذمت کی ہے۔ دراصل بھارتی واویلا کشمیر سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے‘ اقوام متحدہ اور یورپین پارلیمنٹ کی کشمیر بارے رپورٹیں عالمی برادری کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کی تنظیمیںکئی بار عالمی برادری کی توجہ بھارتی قتل وغارت کی جانب مبذول کروا چکی ہیں لیکن وہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کو تیار ہی نہیں ، پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 137ویں لانگ کورس کی پاسنگ آئوٹ سے خطاب میں اقوام عالم پر واضح کیا تھا کہ اگر اس خطے میں امن، سکون اور استحکام چاہتے ہو تو آپ کو مسئلہ کشمیر حل کرنا ہو گا۔ اس خطے کا بنیادی مسئلہ امن و امان کی مخدوش صورتحال ہے۔ بھارت کشمیر میں نہتے عوام اور افغانستان میں پاکستان کے خلاف سازشیں کر کے بدامنی پھیلانے میں سرفہرست ہے۔ اسے اس سے روکنے کی بجائے امریکہ جیسے ملک کا اس کے ساتھ مل کر خطے میں مضبوط بلاک بنانے کی باتیں خود اس کی اپنی امن کی پالیسیوں کی نفی ہے۔ امریکہ بھارت کو شہہ دینے کی بجائے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے روکے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے پر زور دے کیونکہ اس خطے کی امن کی چابی مسئلہ کشمیر کے حل میں ہی مضمر ہے۔