گذشتہ دِنوں وفاق المدارس کے سابق سربراہ مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے صاحبزادے اور مہتمم جامعہ فاروقیہ مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور قاتلانہ حملے میں شہید کردیے گئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے مولانا عادل کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کی اور کہا کہ بھارت پاکستان میں علماء کو قتل کرا کر شیعہ سنی فرقہ وارانہ تنازع پیدا کرانا چاہتا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کا کہا دُرست ہوگا،ہم یہاں ایک اور پہلو سے اس طرح کے اندوہناک واقعات کی تفہیم کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر نوع کی قتل و غارت گری اور فرقہ وارانہ قتل وغارت گری اورمذہبی علماء کی ٹارگٹ کلنگ ،آج کی بات نہیں ہے۔یہ مسئلہ دیرینہ ہے ،اس کے پیچھے شناخت کا مسئلہ کارفرما ہے۔اس ریاست کے طاقت ور طبقات نے ،جن کا ذکر ہم اپنے گذشتہ کالم میں کرچکے ہیں،فرد اور سماج کو اپنی مرضی کی شناخت دی،یہ شناخت جو طاقت ور طبقات کی طرف سے ایک دَور میں دی جاتی تو آنے والے دوسرے دَور میں بدل جاتی تھی،اپنی اصل میںساری کی ساری مصنوعی تھی اورکئی تنازعات کو جنم بھی دیتی رہی،یہ تنازعات وقت کے ساتھ ساتھ مزید اُلجھتے چلے گئے۔مصنوعی شناخت کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرد ،افراد کے گروہ اور سماج کا وہی چہرہ رہا ،جو طاقت ور طبقات کو پسند ہوتا۔یہاں ہر تاریخی مرحلے پر ریاست(طاقت ور طبقات) کا بیانیہ تو رہا،سماج کا بیانیہ نہ رہا۔سماج کا بیانیہ کیوں نہ رہا؟کیونکہ طاقت ور طبقات نے سماج کی آزادنہ اور فطری اندازسے تشکیل ہی نہ ہونے دی۔جس کو پاکستانی سماج کہا جاتا ہے ،سماج کی تعریف پر پورا ہی نہیں اُترتا۔پاکستانی سماج،سماج نہ بن سکا،یہ محض مختلف گروہوں کا مجموعہ بن کر رہ گیا،اس گروہوںکے مجموعہ کو ہجوم کہاجاسکتا ہے،سماج نہیں۔اگرچہ ہجوم کے مختلف گروہوں کو اپنی مرضی کی شناخت بھی نہ مل سکی۔اگر مذکورہ گروہوں کو اُن کی اپنی شناخت کے ساتھ قبول کیا جاتا تو یہ اَمر مثبت اثرات رکھتا،جب اِن گروہوں کو شناخت سے محروم رکھا گیا تو ردِعمل میں اِن میں انتہاپسندی کا عنصر پیدا ہوتا گیااوراِن کے مقاصد کے حصول کا دائرہ بہت محدود ہوتا گیا ۔پاکستانی سماج ،سماج کی سطح پر کیوں نہ آسکا اور ہجوم ہی رہا؟اس کی راہ میں مزاحم خود ریاست ہی رہی۔ہر دور میںسماج کا تصور کمزور رہا۔یہی وجہ ہے کہ سماجی سطح پر کوئی بڑی اور مؤثر تحریک کبھی جنم نہ لے سکی،یہاں سماج کے مختلف گروہ احتجاج کرتے پائے جاتے رہے ، مگر یہ احتجاج اپنی شناخت سے زیادہ اپنے معاشی یا اختیاراتی حقوق کے لیے ہوتا تھا۔یہ سماجی احتجاج ، ٹکرانے کی ہمت کم ہی کرتا رہا ہے۔جب 1958ء میں مارشل لاء لگایا گیا ،سماجی سطح پر کس حد تک احتجاج نے جنم لیا تھا؟ایوب خان نے اقتدار جنرل یحییٰ کو منتقل کیا اور ایک بارپھر مارشل لاء لگا ،سماجی سطح پر کس حد تک احتجاج ہوا تھا؟،سقوطِ ڈھاکا ہوا، سماج سے سقوط سے متعلق ریاست (جہاں بات ریاست کی ہو،وہاںطاقت ورطبقات کا گروہ،سمجھاجائے)سے چند سوالات پوچھنے کی جرأ ت بھی ہوئی؟جب ذوالفقار علی بھٹو ،جو کہ عوام کا نمائندہ تھا،گرفتار ہوا اور پھانسی چڑھادیا گیا ،تب سماج نے طاقت کے مراکز سے ٹکرانے کی کتنی جرأت کی تھی؟ضیاء الحق نے طویل عرصہ اقتدار پر قبضہ کیے رکھا،اس کے خلاف سماجی سطح پر کتنا بڑاردِعمل دیکھنے کو ملا؟1988ء سے 1997ء تک کوئی بھی منتخب حکومت اپنی مُدت پوری نہ کرسکی اور لوگوں کے ووٹ کی تضحیک ہوتی رہی ،سماجی سطح پر کتنا بڑا انقلاب پھوٹا؟پھر مشرف نے بارہ اکتوبر 1998ء کو اقتدار پر زبردستی قبضہ کیا ،سماج نے انگڑائی لی؟بے نظیر جو کہ بین الاقوامی سطح پر پہچان رکھنے والی سیاسی شخصیت تھی،قتل ہو جاتی ہے ،سماجی سطح پر دوتین روز توڑ پھوڑ ،جلائو گھیرائو ہوتا ہے ،پھر گہری خاموشی چھا جاتی ہے،اگست2015ء میں آرمی پبلک سکول پشاور میں ایک سوچالیس سے زائد معصوم بچوں کو گولیاں ماری جاتی ہیں ،سماج کو ڈھنگ سے سوگ تک نہ منانا آیا۔تاریخ کا ہر موڑ ،جس کا اُوپر ذکر ہوا،یہ نہیں کہ افراد یا اُن پر مبنی گروہوں کو جھنجھوڑتا نہیں رہا،اپنی اپنی سطح پر ماتم ضرور ہوا مگر یہ گروہ بڑی تبدیلی لانے سے قاصر رہے،وجہ محض یہ کہ گروہ سماج نہ بن سکے تھے۔دوسری طرف چھوٹے پیمانے پر احتجاج ہوتے بھی تھے تو اُن کو بہت آسانی سے دَبادیا جاتا۔یہاں سماج کی تعریف کا اظہار ضروری ہے ،سماج کیا ہوتا ہے؟جب افراد مختلف بندھنوں،ضرورتوں اور آزادانہ طرزِ اظہار کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں ،تو اِن کا مل جل کر رہناہی سماج کہلاتا ہے۔اس مل جل کررہنے میں اخلاقیات، قواعد و ضوابط،روایات اور اقدار کی کارفرمائی ضروری ٹھہرتی ہے ،کہ ان کے بغیر سماج کا ڈھانچہ برقرار نہیں رہ پاتا۔یوں آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ سماج سے مُراد ،افراد کا وہ مجموعہ جو قواعد وضوابط ، اخلاقیات، اقدار، روایات ،آزادی ،مختلف بندھنوں اور ضرورتوں کے تحت مل جل کر رہتا ہے،سماج کہلاتا ہے۔سماج کے مختلف طبقات کا ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا بے حد ضروری ہے۔اسی طرح ریاست کا سماج کے ساتھ ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ کوئی بھی انسان ،چاہے وہ کتنا ہی طاقت ور اور بہادر کیوں نہ ہو،اکیلا نہیں رہ سکتا ،اکیلے رہنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ،اُس کا زندگی کے تمام معاملات میں بااختیار ہونا نہیں ٹھہرتا۔ایک متوازن اور انسان دوست سماج کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ افراد کو اپنی شناخت کے تمام حوالے میسر ہوں۔ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی حیثیت میںآزادی کے احساس کے حامل ہوں۔مگر یہاں فرد کو اس کے شناختی ورثہ سمیتِ قبول نہیں کیا گیا۔ اس ورثہ کو تو فرد نے صدیوں سے سنبھال رکھا تھا ،جو چیز صدیوں سے ورثہ چلی آرہی ہو،اُس کو کوئی چھین نہیں سکتا۔مگر کوئی اس کا ادراک نہ کرسکا۔نتیجہ یہ نکلاکہ مصنوعی شناخت کے سائے میں یہاں کا فرد سما نہ سکااور وہ اپنے ثقافتی ورثہ کے بغیر اپنی جڑت نہ بنا سکا،یوں وہ شناخت کے بحران کا شکار ہو گیا۔ آج کا بڑا مسئلہ شناخت کے بحران کا مسئلہ ہے۔اپنے مسائل کی ذمہ داری دوسروں پر ضرور ڈالیں اور دوسرے بھی ،آپ کے لیے مسائل ضرور پیدا کرتے ہوں گے ،مگر مسئلے کی جڑکی تلاش بھی کریں ،یہ تلاش اپنے اندر حل بھی رکھتی ہوگی۔