محسن نقوی کو ادبی حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی، اس مشہوری نے محسن نقوی کو سرائیکی کی طرف نہ آنے دیا ۔ محسن نقوی کے کلام کو بہت سارے گلوکاروں نے گایا جن میں نصرت فتح علی خان، غلام علی ،عطااللہ خان نیازی ، منصور ملنگی ، مہناز ، خلیل حیدر، رونا لیلیٰ اور غلام عباس کے نام شامل ہیں ۔ فلم ’’ بازار حسن ‘‘ کے گانے لکھنے پر ان کو نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ 1994ء میں ان کی ادبی خدمات پر انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا ۔ اس سال بیگم نصرت بھٹو نے ان کو جمہوری ایوارڈ بھی دیا ۔ محسن نقوی کا پیپلز پارٹی کے ساتھ گہرا تعلق تھا ۔ اپنی وفات کے وقت محسن نقوی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشیر تھے ، ان کی کئی سیاسی نظمیں مشہور ہوئیں ۔ان کا ایک مصرعہ تو آج بھی پیپلز پارٹی کے جلسوں میں نعروں کی صورت میں گونجتا ہے ’’ یا اللہ یا رسول ، بے نظیر بے قصور ‘‘ ۔ سرائیکی میں بہت کم مگر محسن نقوی نے اردو میں غزل، قطعات ، مرثیے ، سلام ، نوحے، منقبت اور مذہبی شاعری کے حوالے سے بہت شہرت حاصل کی ۔ کربلائی ادب میں غیر معمولی کام کرنے پر نامور شاعر قتل شفائی نے ان کو شاعر اہل بیت کا خطاب دیا ۔ محسن نقوی کی شہرت کا ایک حوالے ذاکر اہل بیت ہونا بھی تھا ، محسن نقوی بطور ذاکر پاک و ہند میں مشہور تھے ’’ خطبات محسن ‘‘ کے نام سے ان کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مرثیہ اور قصیدہ کو ملا کر کربلائی شاعری میں ایک نیا تجربہ کیا ، یہی وجہ ہے کہ مذہبی حلقوں میں محسن نقوی کو سلام و مناقبت کو غیر معمولی شہرت ملی ۔ محسن نقوی 15 جنوری 1996ء کو لاہور کی مون مارکیٹ میں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ان کے دو صاحبزادے اسد نقوی اور عقیل نقوی بھی شعر و ادب سے وابستہ ہیں ۔ کچھ سنگتی ناراض نہ ہوں تو کہتا جاؤں جس شخص نے ساری زندگی اردو کی خدمت کی ، جس شخص نے ساری زندگی لاہوریوں کی خدمت کی مگر وہ ان کو بھول گئے البتہ وسیب نے یاد رکھا ہے ۔ سید محسن نقوی جن کا اصل نام غلام عباس تھا ، 5 مئی 1947ء کوڈیرہ غازی خان کے بلاک 45 میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم پرائمری سکول نمبر 6 بلاک 44 سے حاصل کی ۔بعد میں گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازی خان سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج دیرہ غازی خان سے ایف اے اور بی اے کیا ۔ محسن نقوی 1965ء میں گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں بزم ادب کے صدر تھے۔ 1970ء میں انہوں نے ایم اے اردو گورنمنٹ کالج ملتان سے کیا ۔ محسن نقوی کا تعلق خوشحال گھرانے سے تھا ، جس کے پاس خوشحالی ہو وہ گھر کی حویلی میں اولاد کے ساتھ سرکاری اور دوسری زبانیں بولنے لگ جاتے ہیں ، محسن نقوی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ اردو کی زلف کے اسیر وہ بچپن سے تھے ۔ محسن نقوی اپنے شعری سفر کا آغاز آٹھویں جماعت سے کیا ۔ ماحول کی وجہ سے اردو کی طرف چل پڑے ۔پھر وہ ڈیرہ غازی خان کے ادبی حلقوں کے ساتھ بھی متعارف ہوئے اور ابتدائی طور پر شفقت کاظمی سے اصلاح حاصل کی ۔ اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ ڈیرہ غازی خان میں کیف انصاری کی دعوت پر پڑھا ، بڑی واہ واہ ہوئی اور بڑی داد ملی ۔ پھر وہ پکے اردو کے ہو گئے ۔ محسن نقوی کا پہلا مجموعہ گورنمنٹ کالج ملتان میں تعلیم کے دوران ہی 1970ء میں ’’ بند قبا ‘‘ کے نام سے سامنے آیا ۔ پھر دوسرا مجموعہ ’’ برگ صحرا‘‘ 1978ء ، ’’ موج ادراک ‘‘ 1980ء ’’ ردائے خواب ‘‘ 1985ء ، ’’ زیرہ حرف ‘‘ 1986ء ’’ عذاب دید ’’ 1991ء ’’ طلوع اشک ’’ 1993‘‘ رخت شب ’’ 1994ء ’’ خیمہ جاں ‘‘ 1996ء جب کہ ’’ فرات فکر ‘‘ اور ’’ حق ایلیا ’’ 1997ء میں شائع ہوئے ۔ رحیم یارخان رہتے تھے ، بزم فرید کی ادبی محفلیں ہوتی تھیں ، سرائیکی رسالے سچار میں محسن نقوی کے ساتھ عزیز شاہد کا کلام بھی پڑاتو ملنے کی خواہش بڑھ گئی اور ڈیرہ غازی خان تیاری کر لی۔ مجھے سچار کے ایڈیٹر غلام یٰسین فخری نے سمجھایا کہ ڈیرہ غازی خان بلاک 44 میں عزیز شاہد کا گھر ہے اور بلاک 45 میں محسن نقوی کا۔ اتفاق سے کوئی نہ ملا ۔ رحیم یارخان محسن نقوی کے قریبی رشتہ دار لیبر آفیسر تعینات ہوئے ۔ محسن نقوی رحیم یارخان آئے تو وہ انہیں خانپور لے آئے۔ میں نے نقوی صاحب سے درخواست کی کہ سرائیکی ماں بولی میں لکھنا شروع کریں ۔ محسن نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں ، میں آگے سرائیکی میں لکھوں گا ۔ اس لئے کہ محسن سرائیکی ماں دھرتی کا بیٹا تھا ، ہمیں اس سے محبت ہے۔ محسن کا نام آئے تو خوشی ہوتی ہے ،ہم محسن کا دن مناتے ہیں اسکی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ محسن نقوی کا پہلا تعارف سئیں غلام یٰسین فخری کے رسالے سچار کے حوالے سے ہوا ۔ رسالے میں محسن نقوی کی بات چیت اور سرائیکی غزل پڑھی ،شاعری سے بہت متاثر ہوا ،غزل کا مقطع یہ تھا : محسن ہجر دی رات کوں ہنج دی زکوٰۃ ڈے اے بے سہاگ رات ازل دی غریب ہے سرائیکی ادیب احسان اعوان نے محسن نقوی کا ایک شعری مجموعہ مرتب کیا ہے ، اس میں کم تعداد میں ہی سہی محسن نقوی کی کچھ چیزیں محفوظ ہو گئی ہیں اور بہت اچھے شعر پڑھنے کو ملے ہیں جیسا کہ آج کے حالات کے مطابق انہوں نے لکھا ’’ سڑکیں دی رونق مُک گئی ہے ، سم گئے ہِن لوک محلیں دے ‘‘ ۔ اسی طرح ان کا ایک شعر یہ بھی زبان زِد عام ہے کہ ’’ جیں کوں لوک خلوص دا ناں ڈٖیندن ، اے نانگ ہتھیں وچ پلدا ہے ‘‘ ۔ محسن نقوی کی شاعری آج کے عہد کی شاعری ہے ، وہ بہت سمجھدار اور دیدہ ور شاعر تھا، اس نے اپنی شاعری میں نئے نئے تجربے بھی کیے ۔ جیسا کہ درج ذیل غزل میں کے ہر شعر میں انہوں نے اپنا تخلص ردیف کے طور پر شامل کیا ، غزل کے اشعار دیکھئے : جے دل وچ ہو وی سچ محسنؔ جیویں دل آکھی ودا نچ محسنؔ سئے اولے پاون اکھ والے نئیں بنڑدا سونا کچ محسنؔ میڈا تن ہے برف دی سلھ وانگوں ہن دل وچ بھاہ دے مچ محسن ہک جیندا گھر کوں سکدا پے سے قبراں چونے گچ محسن اتھوں او نئیں سنڑ دا گالھ میڈی اتوں لوکیں دی ہچ ہچ محسن ایں دور دیوچ جیکوں یار سڈی او مشکی نانگ ہئی بچ محسن