مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں دو ہی ہفتے رہ گئے۔بہت تھوڑا وقت ہے لیکن اس تھوڑے وقت میں بھی کئی واقعات ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ گرفتاریاں ہو جائیں۔ دوسرا یہ کہ مزید گرفتاریاں ہو جائیں۔ تیسرا یہ کہ مزید دو مزید گرفتاریاں کی جائیں۔ چوتھے واقعے کا بھی امکان ہے لیکن اس کا علم نہیں۔ ریلوے کے وزیر نے مولانا کے ایک آدھ ساتھی کی جلد پکڑے جانے کی اطلاع تو دے ہی دی ہے۔دیگر ذرائع سے خبر چھپی ہے کہ خود مولانا کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ یار لوگوں کو خدا نے ذہن رسا دیا ہے‘ کوئی نہ کوئی ’’مدّا‘‘ تخلیق کر ہی لیں گے۔ حکومتی وزیر اور ترجمان ہر روز مولانا کی ’’خوبیاں‘‘ میڈیا کو بتا رہے ہیں۔ یہ کہ وہ سیانے نہیں ہیں۔ انہیں اسلام سے کوئی واسطہ نہیں‘ انہیں صرف حلوے کی پلیٹ چاہیے۔ ایک نکتہ سب میں مشترک ہے اور وہ اس بات کا اعلان کہ مولانا مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں جس کی اجازت نہیں دیں گے۔ مولانا کے پانچ مطالبات ہیں جن میں سے دو مذہبی ہیں۔ جوتوہین رسالت اور ختم نبوت سے متعلق ہیں۔ باقی تین میں وزیر اعظم کا استعفیٰ‘ پارلیمنٹ کی تحلیل اور نئے الیکشن شامل ہیں۔ گویا ان کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں مذہبی کارڈ دو بٹہ پانچ ہے۔ تین بٹہ پانچ سیاسی کارڈ ہے۔ اگر مولانا کے سارے مطالبات مذہبی ہوتے تو شاید وزیروں کو اتنی پریشانی نہ ہوتی۔ ان کی پریشانی کی وجہ سیاسی مطالبات ہیں نہ کہ مذہبی کارڈ۔ سال بھر پہلے مذہبی کارڈ والوں نے اڑھائی تین ہفتے اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا۔ کئی بڑے شہروں میں بھی خوب اودھم مچایا۔ وزیروں کے گھروں بلکہ خود وزیروں پر حملے ہوئے۔ تب عمران خاں کہ ابھی وزیر اعظم نہیں بنے تھے کے خیالات مختلف تھے۔ پنجاب حکومت کہتی ہے۔ مدارس کے بچوں کو دھرنے میں لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ کوئی آدمی 18سال سے کم عمر کا نہیں ہو گا۔ پنجاب حکومت کا اعتراض کس بات پر ہے‘18سال کے بچوں‘ پر یا اس پر کہ ان کا تعلق مدرسے سے ہے؟ ویسے بہت سے لوگ ایسے بھی دھرنے میں آئیں گے جن کا مدرسے سے کوئی تعلق نہیں۔ علاوہ ازیں آئین کے تحت دھرنے یا جلسے یا جلوس میں اگر کالج کے لڑکے شریک ہو سکتے ہیں تو مدرسے کے بھی آ سکتے ہیں۔ حکومت چاہے تو قانون بدل دے کہ مدرسے کے حقوق اور۔ کالج کے اور ہیں۔ ٭٭٭٭٭ مسئلہ کشمیر پر ایک ہی پارٹی مسلسل جلسے اور جلوس کر رہی ہے وہ جماعت اسلامی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سیاسی یا دینی پارٹی مظاہرے نہیں کر رہی۔ ہاں یہ بیان سبھی دے رہے ہیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ ساتھ کا کیا ہے‘ گھر بیٹھ کر بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بیڈ روم سے بھی۔ جماعت کے امیر نے کہا ہے کہ کشمیری پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور پاکستان مکہ مدینہ کے بجائے واشنگٹن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مکہ مدینہ کی طرف بے شک نہیں دیکھ رہا لیکن مکہ مدینہ کے پاس ہی ایک شہر ریاض بھی ہے‘ پاکستان ادھر تو دیکھ رہا ہے‘ کیا یہ کافی نہیں خود ریاض واشنگٹن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ جماعت اسلامی کا مطالبہ کشمیریوں کی عملی مدد کرنے کا ہے جو اصولی طور پر سوفیصد درست ‘ عملی طور پر سوفیصد ناممکن ہے۔ درست اس لئے ہے کہ کشمیریوں کو آزادی باہر سے ملنے والی مدد کے بغیر مل ہی نہیں سکتی۔ آج تک دنیا میں کوئی خطہ باہر کی مدد کے بغیر آزاد نہیں ہو سکا۔ ویت نام آزاد ہوا تو چین اور روس کی مدد سے ہوا۔ بوسنیا آزاد ہوا تو امریکی مداخلت سے۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان امریکہ اور یورپ کی مداخلت کی بدولت آزاد ہوئے(ضمناً یہ اطلاع دینا مناسب ہے کہ مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کا کیس بھی کمزور تھا۔ یہ علاقہ انڈونیشیا کا حصہ نہیں تھا‘ یہ پرتگالی کالونی تھا۔ اس نے آزادی دی تو 1975ء میں انڈونیشیا نے فوج بھیج کر اس پر قبضہ کر لیا)سابق یوگو سلاوی ریاستوں کو یورپ نے آزادی دلوائی۔ خود برصغیر تب آزاد ہوا جب جرمنی نے ’’مداخلت‘‘ کر کے برطانیہ کو کنگال کر دیا(دوسری جنگ عظیم) افریقی ملک بھی عالمی دبائو اور استعماری طاقتوں کے کمزور ہونے کے دوہرے عملے کی وجہ سے آزاد ہوئے۔ افغانستان کو روسی چنگل سے امریکہ اور پاکستان کے علاوہ بہت سے مسلمان ممالک کی مداخلت کے نتیجے میں آزادی ملی۔ تامل باغیوں کو باہر سے مدد نہیں ملی۔ کچل دیے گئے‘ شام‘ کی 90فیصد آبادی نے ہتھیار اٹھائے‘ ترکی اور سعودیہ نے انہیں بیچ میں چھوڑ دیا‘ آزادی کی تحریک ناکام ہو گئی۔ خالصتان کی تحریک سے ہاتھ اٹھا لیا‘ وہ نابود ہو گئی۔ آسام کی علیحدگی کی تحریک کو باہر سے مدد نہیں ملی۔ وہ قریب الختم ہے۔ ناگا لینڈ اور یزدرام کا بھی کوئی ساتھی نہیں تھا‘ ناچار انڈین یونین سے سمجھوتہ کر لیا۔ کشمیری مافوق البشر نہیں باہر سے مدد نہ آئی تو کب تک لاشے اٹھائیں گے لیکن باہر سے مدد اب ممکن نہیں۔ کیا ہم پھر سے جہادی بھیج سکتے ہیں؟ اسی ہفتے کی خبر ہے‘ جماعت الدعوۃ کے چار رہنمائوں پروفیسر ظفر اقبال‘ یحییٰ عزیز، محمداشرف اورعبدالسلام دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کر لئے گئے۔ الزام ہے کہ انہوں نے ایک الانفال ٹرسٹ بنایا اور اس کی مدد سے ایک مسجد تعمیر کر لی۔ دہشت گردی کہاں ہے؟ انفال ٹرسٹ میں یا مسجد میں؟ دراصل یہ موثر بہ ماضی‘ معاملہ ہے۔ اب فرمائیے کوئی نئی جماعت الدعوۃ بنے گی۔ دوسری صورت جنگ کی ہے۔ اس کا تو پنجابی محاورے کے مطابق‘ورقہ ہی پھاڑ دیا گیا۔ تیسری صورت عالمی دبائو ہے۔ یہ ہنستے ہنستے رونے اور روتے روتے ہنسنے کا مقام ہے کہ ساری اسلامی برادری اس مسئلے پرہمارے ساتھ ہے۔عالمی برادری کا تو پوچھیے ہی مت یہ مسئلہ کشمیر کی تصویر ہے‘ بالکل صاف‘ ذرا بھی دھندلی نہیں۔