کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکاں سے کاسہ سر بھر لیا اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا بزم انمول انٹرنیشنل کی جانب سے منعقدہ مشاعرہ تو صوبائی و پارلیمانی سیکرٹری اور ایم پی اے مہندر پال سنگھ کے باعث ایک جلسہ کا رنگ اختیار کر گیا تھا۔ مہندر پال سنگھ نے کھلی ڈلی باتیں کیں انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی برادری سرتاپا پاکستان کی محبت میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ ان کے گرو نانک کی یہ جنم بھومی ہے۔ ان کے لئے زمین پاکستان ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے لئے مکہ اور مدینہ۔ انہوں نے بھارت کے سفر کا دلچسپ واقعہ سنایا جس میں پاکستان ڈیلی گیشن تھا۔ ہندوئوں نے انہیں ان کی ریزرو سیٹس سے محروم کرنا چاہا تھا تو لڑائی ہو گئی۔ انہوں نے ہندوستان میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے بھارت میں پاکستانی جھنڈا لہرایا۔ ہم سب ان کی باتیں بڑی دلچسپی سے سن رہے تھے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میری صدارت میں وہ میرے ملک کی باتیں کر رہے ہیں۔ شاعری کے حوالے سے بھی انہوں نے بہت خوب بات کی کہ شاعری انہیں اس لیے بھی پسند ہے کہ ان کی گرو گرنتھ صاحب ہے ہی شاعری میں۔ اس میں ہمارے صوفیا کے بھی بیت ہیں۔ دوسری بات انہوں نے بہت ہی شگفتہ انداز میں بتائی کہ شاعری سے ان کا بہت تعلق رہا کہ وہ اپنے ایک دوست کو اس کی محبوبہ کے لئے شعر لکھ کر دیتا تھا۔ نتیجتاً ان کا دوست اس شاعری کی وجہ سے تین بچوں کا باپ ہے۔ دوسری مہمان پارلیمانی سیکرٹری اور ایم پی اے طلعت نقوی تھیں۔ نہایت شائستہ اور کم گو۔ انہوں نے بھی پاکستان کے حوالے سے بہت اچھی باتیں کیں اور خاص طور پر بزم انمول انٹرنیشنل کی روح رواں انمول گوہر اور انیس احمد کا شکریہ ادا کیا کہ انہیں ادیبوں اور شاعری کے ساتھ مکالمہ کا موقع دیا۔ اس مشاعرہ سے پہلے کے پروگرام کہ جو ناروے سے آئے ہوئے محمد ادریس لاہوری کے اعزاز میں تھا کی صدارت پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کی تھی اور ہمارے دونوں مہمان یعنی مہندر پال سنگھ اور طلعت نقوی پلاک کے بورڈ آف گورنر کے ممبرز بھی ہیں۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف کا کمال یہ ہے کہ اس نے پلاک کو ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیا ہے کوئی دن نہیں گزرتا کہ کوئی نہ کوئی تقریب نکال لی جاتی ہے۔ کیوں نہ صاحبہ صدارت کے دو شعر آپ کو پڑھا دیے جائیں: عشق سمندر تر کے ویکھاں ایہہ پینڈا وی کر کے ویکھاں سارے تینوں رج رج ویکھن میں دنیا توں ڈر کے ویکھاں اس شاندار تقریب و مشاعرہ میں یو اے ای سے آئے ہوئے وہاں کی بزم اقبال کے صدر جناب پرنس اقبال بھی تشریف فرما تھے۔ ساتھ ہی ہمارے معروف شاعر سید سلمان گیلانی تشریف فرما تھے۔ عرفان خانی‘ مرزا احمد عباس اور علی اصغر عباس بھی رونق افروز تھے۔ میں سمجھتا ہوں ایسی محافل وقت کی ضرورت ہیں۔ انیس احمد نے خوب نظامت کی اور انہوں نے چرچل کی بات کوٹ کی۔ جب برطانیہ جنگ کی حالت میں تھا تو بجٹ میں ادب و ثقافت کے لئے رکھی گئی رقم پر اعتراض ہوا تو چرچل نے کہا کہ اگر آپ ادب و ثقافت پر خرچ نہیں کریں گے تو پھر آپ جنگ کیوں کر رہے ہیں۔ اسی ادب و ثقافت کو بچانے کے لئے تو برطانیہ جنگ کر رہا ہے۔ ویسے چرچل نے ایک اور بات بھی خوب کہی تھی کہ جس ملک کی عدالتیں انصاف کر رہی ہوں تو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ چلیے انیس احمد کا ایک شعر: میں جب چاہوں نکل آئوں بدن کے قید خانے سے مگر خود سے رہائی کا ابھی سوچا نہیں میں نے ایک اور مزیدار بات یہ کہ مہندر سنگھ کے باعث یا ویسے ہی تقریب میں پنجابی چلتی رہی۔ انمول کے ایک شعر نے اپیل کیا: چپ چپیتی ویکھ کے مینوں شیشہ بولن لگ پیندا اے نورین شاکر نے بھی ایک نیا شعر کہہ کر چونکایا: جنیں اتوں جوڑے آئے اوہنے نال وچھوڑے آئے اس کا اردو شچر بھی خوبصورت تھا: بجا کہ میں شکار میں تمہار ے ساتھ چل تو دی مرا وجود ہی تمہارے جال میں ملا مجھے میرے معزز قارئین!یہ میرا فریضہ ہے کہ کوئی اچھی بات جو مجھے اچھی لگے آپ تک پہنچا دوں۔ میرے لئے یہ فرحت و انبساط کا باعث ہوتا ہے کہ جب لوگ میرا کالم پڑھ کر میری کوشش کو سراہتے ہیں۔ اچھے شعر پر اس کے خالق کو داد دینا ظرف کی بات ہے اور شاعر کا حق ہے۔ اسلم شوق کا شعر ذرا دیکھیں: میرے سر تے پگ نہ ٹکدی اوہدے سر دوپٹہ دونواں دے سر مٹی پیندی دواں دے سر گھٹا ہمارے مہمان خاص ادریس لاہوری کہ جن کے بارے میں ہمارے دوست عزیز احمد نہایت اچھی گفتگو کی اور انہیں ناروے پاکستان کا سفیر کہا۔ واقعتاً بہت ہی نفیس اور تہذیب یافتہ ہیں۔ انہوں نے اردو اور پنجابی کلام سنا کر داد پائی: بھکے بالک رجدے نہیوں تھپکی نال دلاسے نال میں اندروں جد مریا تے مر گئے میرے ہاسے نال اب ہمارے مہمان شاعر سید سلیمان گیلانی کا ایک مزاحیہ قطعہ بھی پڑھ لیں: اک چندہ گوری میم سی ہمسائی ہے مری میری دلی دعائیں ہیں اس میم کے لئے کل اپنی ماں سے کہتی تھی چندہ نہ کہہ مجھے عمران خان مانگ نہ لے ڈیم کے لئے اگر کچھ شعرا کے شعر رہ گئے تو یہ کالم کی تنگ دامانی ہے۔ بہرحال ممتاز راشد لاہوری کی ایک مزاحیہ نظم کے ساتھ اجازت: کھوپڑی دو طرح کی ہوتی ہے ایک ایسی کہ مغز ہو جس میں دوسری آپ خود سمجھ لیجیے