معیشت کو چلانے میں موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے‘ اب اس ضمن میں کوئی دو رائے نہیں‘ زرمبادلہ کے ذخائر کی خوفناک صورتحا ل مزید بھیانک ہورہی ہے‘ ورلڈ بینک نے بھی پاکستان کو ملنے والا 1.1ارب روپے کا قرضہ موخر کردیا ہے‘یہ قرضہ پاکستان کو دو اقساط میں ملنا تھا‘ 450 ملین ڈالر جنوری اور 600 ملین ڈالر کا قرضہ جولائی میں موصول ہونا تھا‘ ورلڈ بینک نے رائز ٹو اور پیس ٹو کے نام سے دو منصوبوں کی فنڈنگ کرنا تھی‘معیشت کی استحکام کے پروگرام رائز کیلئے 45 کروڑ ڈالر کے فنڈز بھی اس میں شامل تھے‘ سستی توانائی کے پروگرام کیلئے 60 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ بھی موخر کردی گئی ہے جبکہ دوسری طرف ایشائی ترقی بینک نے بھی انرجی سیکٹر کیلئے 450 ملین ڈالر کی ادائیگی روک دی ہے‘ وزارت خزانہ کے مطابق 600 ملین ڈالر کا جولائی میں ملنے والا قرضہ اب 2024ء میں ملے گا‘ یہ حالات انتہائی خطرناک ہوچکے ہے‘پاکستان کے پاس اس وقت آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کرنے کے علاوہ بظاہر کوئی چارہ کار نہیں‘ آئی ایم ایف پاکستان میں تمام بنیادی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافوں کا خواہاں ہے‘ پٹرولیم مصنوعات‘بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی ہر 15 یوم بعد خاطر خواہ اضافے چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ ہر طرح کی سبسڈی ختم کردی جائے‘ ڈالر کے ریٹ کو مصنوعی طریقے سے روکنے کا مخالف ہے، حکومت آئی ایم سے ہر حال میں قرضہ حاصل کرنے پر مجبور ہے، ایک طرف حکومت کو اس قسم کی مشکلات کا سامنا اپنی ناقص معاشی و اقتصادی پالیسیوں کے باعث ہے جبکہ دوسری طرف دوست ممالک بھی ہمیں قرضہ دینے سے کترارہے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں نے سرمایہ کاروں کو الگ سے خائف کررکھا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری میں 59 فیصد کمی ریکارڈ کی جا چکی ہے، سرمایہ کاری کا فقدان صنعتی‘تجارتی اور زرعی سرگرمیوں کو بری طرف مفلوج بنا کر بحران کو دوائم دے رہا ہے‘سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ ملک میں فوری طو ر پر 2 کروڑ سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں‘ 10لاکھ سیلاب متاثرین کو گھروں کی اشد ضرورت ہے‘وہاں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کے ایسے بیانات بھی ریکارڈ پر آچکے ہیں کہ عالمی میڈیا کی توجہ سیلاب سے ہٹ گئی ہے‘ تباہی کی قیمت تنہا چکانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا‘ حکومت گزشتہ دنوں جنیوا میں ایک ڈونر کانفرنس میں شریک ہوئی تھی جس کے بار ے میں بتایا گیا کہ عالمی برادری نے دل کھول کر 9.7ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے‘اس ضمن میں وزیر اعظم شہباز شریف نے متعدد وفاقی وزراء کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی‘جس میں وہ خود واضح نہیں تھے کہ یہ وافر رقم پاکستان کو امداد کی صورت میں دی جائیگی یا قرضے کی صورت میں مرحلہ وار فراہم کی جانی ہے تاہم جنیوا کانفرنس میں اعلان کردہ عالمی رقم تاحال پاکستان کو حاصل نہیں ہوئی‘یہ رقم فوری طو رپر حاصل نہیں ہوگی اور بتایا جارہا ہے کہ دو سے تین سالوں تک مرحلہ وار اس رقم کے تحت مختلف تعمیر نو کی بحالی کے منصوبوں پر کام کیا جائیگا‘البتہ سیلاب متاثرین کا شمار بھی قوم میں ہوتا ہے‘وہ تاحال بدترین مسائل اور نا مساعد حالات کا شکار ہیں‘جبکہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں انفراسٹکچرکی بحالی میں تاخیر کے سبب رواں سال کے دوران بھی ہمیں غذائی قلت جیسے مسائل سے دو چار ہونا پڑیگا‘ اس وقت بھی ملک میں جس حد تک آٹے کا بحران موجود ہے‘گندم کی قیمت کم کرنے کے باوجود ملک بھر میں آٹے کے تیسرے آسمان تک پہنچے داموں پر عوام سراپا احتجاج ہیں‘ آئندہ زرعی پیداوار میں کمی کے مسائل اس طرح کے بحرانوں کو مزید ہوا دے سکتے ہیں کیونکہ حکومت نے کسی قسم کی پیشگی حکمت عملی کو ترتیب نہیں دیا‘اب مختلف تجارتی و صنعتی حلقوں کی جانب سے بھی مسلسل احتجاج سامنے آنے لگا ہے‘ کراچی کے کاروباری حلقے گزشتہ روز گورنر اسٹیٹ بنک کے سامنے پھٹ پڑے اور ایسے ہولناک انکشاف بھی سامنے آئے کہ آئندہ ماہ مقدس رمضان المبارک میں مختلف دالوں کی قیمت ایک ہزار روپے تک پہنچ سکتی ہے‘جس پر ملک میں ہنگامہ آرائی شروع ہونے کے خدشات ہیں‘درحقیقت معیشت کی زبوں حالی کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالا زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا مسئلہ‘اس وقت معیشت کی تباہی کا اصل مسئلہ بن چکا ہے‘سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اس کا سارا ملبہ موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر عائد کررہے ہیں‘ لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا‘ کہ موجودہ پی ڈی ایم اتحاد حکمرانوں نے اپنی حکومت کے قیام سے اب تک مسائل کو بحرانوں میں تبدیل کیا ہے‘ اس وقت بھی زرمبادلہ کے ذخائر کی قلت کے سبب مختلف ایل سیز نہیں کھولی جارہی‘درآمدی سامان کی نان کلیئرنس کئی طرح کے اقتصادی بحرانوں کا موجب بن چکی ہے‘ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کاروباری حلقوں سے گفتگو کرتے ہوئے گو یہ انکشاف کیا کہ ڈالر کے کاروبار میں ملوث بینکوں کے بارے میں تحقیقات مکمل ہوچکی ہے اور جلد ہی انکے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائیگی‘ اس سے ثابت ہوا کہ کوئی نہ کوئی یا کچھ بینک اس کاروبار میں ملوث ہیں مگر ان کے خلاف گزشتہ 7 ماہ سے کبھی وزیر خزانہ تو کبھی کوئی کارروائی کا عندیہ دیتا ہے‘ کارروائی لیکن ان میں سے کسی کیخلاف نہیں کی جاتی‘ جس پر کاروباری حلقوں میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا حکومت بھی ان بینکوں کیساتھ ملوث ہے؟ بدقسمتی سے حکومت کی کوئی پالیسی ہی نہیں‘اندازہ کیجئے کہ ادویات ساز کمپنیوں نے بھی خبردار کردیا ہے کہ ان کے پاس خام مال ختم ہوچکا ہے‘ 15دن میں مسئلہ حل نہ ہوا تو ادویات کی قلت پیدا ہوسکتی ہے‘ فارما مینو فیکچرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین فاروق بخاری نے بتایا کہ 700فارما کمپنیوں نے ادویات کاخام مال بیرون ملک سے منگوایا ہے‘ حکومت ایل سیز کھولے تاکہ اپنا مال اٹھا سکے‘ انہوں نے خبردار کیا کہ 15دن میں مسائل حل نہ ہوئے تو ادویات کی قلت ہوجائیگی‘نومبر سے اب تک 350فارما کے کروڑوں ڈالرز کنسائنمنٹ پورٹ پھنسے ہیں‘حکومت اس جانب بھی توجہ دینے کیلئے تیار نہیں‘حکومت نے ایسے حالات پیدا کردئیے ہیں کہ ٹیکس کولیکشن بھی حد سے زیادہ متاثر ہے‘حکمرانوں نے اگر ہوش کے ناخن نہ لئے تو حالات انتہائی سنگین ہوسکتے ہیں، جیسے کہا جارہا ہے: 200 ارب کے نئے ٹیکسز عائد کرتے ہوئے منی بجٹ لایا جاسکتا ہے۔