موجودہ دور میں جس طرح سرمایہ دار اشخاص کی بجائے تجارتی کمپنیاں بن گئیں،اسی طرح معیشت کے اصل کردار بھی اب فرد نہیں بلکہ ادارے ہیں۔یہ ادارے ایک خاص قسم کی ہم آہنگ ذہنیت رکھنے والے افراد کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میںکارپوریٹس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پوری دنیا کی 10% چیزیں صرف 200 بڑی کمپنیاں بناتی ہیں اور یوںان کمپنیوں کے فیصلے دنیا کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ، اس لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ایسے اداروںمیں فیصلے کیسے کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی کمپنی کے مالک اس کے شئیر ہولڈرزہی ہوتے ہیںاور وہی فیصلہ لیتے ہیں۔ سی ای او اور دوسری انتظامی عہدوں کے انتخاب میں حصہ لینے کا حق شئیر کی اقسام کی بنیاد پر ملتا ہے۔ شئیر ہولڈرز کا انتظامیہ کے انتخاب میں کسی قسم کا کردار نہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے حصے کا منافع کمپنی میں انویسٹ ہونے کی بجائے ان کو دیا جاتا ہے۔ عام شئیر ہولڈرز ووٹنگ کے ذریعے انتظامیہ منتخب کرتے ہیں اور ووٹنگ کا یہ حق انہیں اپنا منافع دوبارہ کمپنی میں انویسٹ کرنے کی وجہ سے ملتا ہے۔انتظامیہ کے انتخاب میں ایک شئیر ہولڈر کا ایک ووٹ کی بجائے ایک شئیر کا ایک ووٹ ہوتا ہے اس طرح اگر کسی ایک فرد کے پاس 10% شئیرز ہیں تو اس کے دس ووٹ گنے جائیں گے۔ عام طور پر بڑی کمپنیوں کے شئیرز کا بہت کم حصہ کسی ایک فرد کے پاس ہوتا ہے، اس لیے جس کے پاس بھی 20% سے زیادہ شئیر ہوں، تو اس شئیر ہولڈر کو کنٹرولنگ شئیر ہولڈر کہا جاتا ہے کیونکہ اسی کا ووٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ ایسی کمپنی جس میں کوئی بھی کنٹرولنگ شئیر ہولڈر نہ ہو وہاںانتظامیہ زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور اس صورت کو سیپریشن آف اونر شپ اینڈ کنٹرول کہتے ہیں۔ یہ حالت کسی کمپنی کیلئے اچھی نہیں ہوتی کیونکہ انتظامیہ کے مقاصد مالکان سے مختلف ہوتے ہیں۔انتظامیہ اور مالکان کے درمیان دلچسپیوں کے اس فرق کو ختم کرنے کیلیے عموماً انتظامیہ کو تنخواہیں دینے کی بجائے ان کو کمپنی کے شئیرز میں حصہ دیا جاتا ہے جس سے وہ بھی کمپنی میں مالکانہ دلچسپی لیتے ہیں۔کارپوریٹ کے علاوہ کوآپریٹو یونینز بھی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔اس طرح کی یونینز میں عام طور پر ہر فرد کا اپنا آزاد کاروبار ہوتا ہے مگر مارکیٹ میں چیزیں مل کر بیچتے ہیں۔ مثلاً سارے گوالوں کا مل کر دودھ بیچنا۔ اس طرح کی یوننیز میں بھی انتظامیہ کا انتخاب ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے مگریہاںایک بھینس ایک ووٹ کی بجائے عموماً بھینسوں کی تعداد سے قطع نظر یونین میں شامل ہر فرد کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک میں سرکار ایک انتہائی اہم معاشی کردار ہے، عموماً ملک میں بننے والی10% سے 30% چیزیں حکومتیں بناتی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ شرح اس سے بھی زیادہ ہے اور وہاں سرکار بڑی کمپنیوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کیلیے ان کے شئیرز بھی خریدتی ہے۔ بذات خود حکومتوں کا فیصلہ لینے کا طریقہ کمپنیوں سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکار دوسری کمپنیوں کی طرح صرف اکثریتی رائے پر فیصلے نہیں کر سکتی کیونکہ حکومتی فیصلوں پر یونینز، ووٹرز اور یہاں تک کہ بڑی کمپنیاں بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو مخلوط حکومتوں میں کسی اتفاق رائے تک پہنچنے کیلیے بھی حکومتوں کو شدید سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ اور جب حکومتی سطح پر اتفاق رائے ہو بھی جائے تو پھر سب فیصلے عمل درآمد کیلئے بیوروکریسی سے گزرتے ہیں۔ بیوروکریسی دراصل پھر ایک کارپوریٹ ہے اور اس میں فیصلوں کا طریقہ بھی کسی بھی اور کارپوریٹ کی طرح پیچیدہ ہے۔ ان مقامی کرداروں کے علاوہ کچھ بین الاقوامی کارپوریٹس مثلاً عالمی بنک اور آئی ایم ایف وغیرہ بھی معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسہ موجود ہے۔ ان اداروں میں امیر ممالک جیسے امریکہ وغیرہ کے سب سے زیادہ شئیرز ہوتے ہیں اس لیے ان کے ذریعے سے امیر ممالک اپنی پالیسیاں غریب ملکوں پر مسلط کرتے ہیں۔ ان اداروں میں فیصلے کسی بھی عام کمپنی کی طرح لیے جاتے ہیں۔عالمی بنک کے 17% شئیرز امریکہ 8% جاپان، 5%چین، اور 4% شیئرز جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے پاس ہیں، اس طرح امریکہ عالمی بنک میں ایک قسم کا کنٹرولنگ شئیر ہولڈر ہے۔ایک اور اہم عالمی کردار عالمی تجارتی ادارہ ہے۔یہ ادارہ بین الاقوامی تجارتی قانون سازی اور سرحدوں کے پار غیر قانونی تجارت کو روکنے کیلئے اہم ادارہ ہے۔ اس ادارے میںایک ڈالر ایک ووٹ کی بجائے ایک ملک ایک ووٹ کا نظام ہے، اس لیے اصولی طور پر غریب اور امیر ممالک دونوں فیصلوں پر برابر اثر انداز ہوسکتے ہیں مگر حقیقت میں یہاں بھی صرف امیر ممالک کی ایما پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ غیر اہم عالمی کردارہیں، جیسے اقوام متحدہ اور یو این ڈی پی وغیرہ ہیں۔ یہ ادارے غیر اہم اس لیے ہیں کہ ان کے پاس پیسہ نہیں صرف آئیڈیاز ہوتے ہیں۔ ان کرداروں کے علاوہ معیشت کا ایک اور کردار میں اور آپ (افراد) بھی ہیں۔ مگر ہم بھی یو این ڈی پی کی طرح غیر اہم کردار ہیں اور اس کی وجہ بھی پیسہ نہ ہونا ہے۔ ہمارے فیصلوں میں اصولی طور پر تو ہمیں مکمل آزاد ہونا چاہیے مگر حقیقت اور "اصولی طور" میں بہت فرق ہے۔ ہمارے حالات بدلتے ہیں اور ہم فیصلے حالات دیکھ کر لیتے ہیںاور ہمارے حالات تبدیل کرنے میں قدرت کے علاوہ حکومت اور بڑی کمپنیوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ہمیں ہمارے مذہبی اور سیاسی راہنما کسی ملک یا کمپنی کی بائیکاٹ جیسی چیزیں کہہ کر بھی ہمارے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ وہ بڑے کردار جن کے پاس پیسہ ہے ہمیں اشتہارات دکھا کر ہمارے فیصلے تبدیل کرواتے ہیں اور بعض اوقات ہم ایسی چیزیں خریدنے کا بھی فیصلہ کرتے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا کہ یہ بھی ہماری ضرورت ہے۔