اُردو ادب کا تابندہ و درخشندہ ستارہ، اُردو نثر کا روشن استعارہ، اُردو مزاح کا مہِ تاباں، جو راجھستان کے ایک رانگھڑ گھرانے میں چار ستمبر ۱۹۲۱ء کو ملنگ خاں کے صاحب زادے عبدالکریم خاں یوسفی کے ہاں ست ماہے بچے کے طور پر طلوع ہوا۔ جس نے تعلیمی امتحانوں اور عملی میدانوں میں انگشت بدنداں قسم کی کامرانیاں سمیٹیں لیکن ناموری کا اصل چاند حرف و حکمت کے آسمان پہ چمکا۔ یوسفی، پیشے کے اعتبار سے بینکر تھے، طویل عرصہ یو بی ایل کے صدر رہے لیکن پچپن سالوں میں ایل بی یو (Literary Bank Unlimited) میں پانچ اکاؤنٹ(چراغ تلے ۱۹۶۱ئ، خاکم بدہن ۱۹۶۹ئ، زرگزشت ۱۹۷۶ئ، آبِ گم ۱۹۹۰ئ، شامِ شعر یاراں ۲۰۱۴ئ) نام کے کھولے، جن کے ذریعے اُردو دنیا کی حرفی معیشت میں ایسی سُود مند بینکاری کی، جس کا منھ زور منافع ادبی نسلیں رہتی دنیا تک سمیٹتی رہیں گی۔ کائناتِ لفظیات و مزاحیات کا یہ سنہری باب بیس جون ۲۰۱۸ء کو ستانوے سال کی عمر میں روشنیوں کے شہر کراچی میںایک نابغۂ روزگار ہستی کی پہچان کے ساتھ تمام ہوا۔ آج زندگی میں قدم قدم کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے اس عظیم قلم کار، سُوجھوان اور نستعلیق شخصیت کا سوواں جنم دن ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جس صدی کی کوکھ میں ایسے سپوت سانس لیتے رہے ہوں وہ صدی، صدیوں میں معتبر ہو جاتی ہے اور صدیوں تک اس افتخار کا خراج وصول کرتی ہے۔ میرا اس عظمت نشان ہستی سے رُبع صدی تک فون، خط، ملاقات اور محبت کا رابطہ رہا اور انھیں ہر روپ سروپ میں بے مثل پایا۔ وہ ادب منچ کے اس سنگھاسن پہ کھڑے ہیں کہ جہاں تعریف میں استعمال ہونے والے لفظوں کی پنڈلیاں کانپتی ہیں اور ستائش کا سامنا کرنے والے جملوں کا رنگ اُڑا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے آج سے پچاس سال قبل کہا تھا کہ ’’ ہم اُردو مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔‘‘ دوستو! وہ ابھی یوسفی کے فن کا نقطۂ آغاز تھا، آج تو برملا طور پر دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ جو اہلِ قلم عہدِ یوسفی میں عہدِ وفا کے ساتھ جیتے رہیں گے، جیتتے رہیں گے۔ آج اس شُبھ گھڑی میں مجھے ایک ہی بات سوجھ رہی ہے کہ سو سال کے اس ادبی مہاشے کو اسی کے جملوں کا خراج پیش کیا جائے۔ ٭ الحمدللہ بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حُلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میںخلل واقع ہو۔ ٭ وہ ایک چھوٹے سے برساتی گاؤں میں پلے بڑھے تھے، جہاں قدم قدم پر سانپ، بچھو اور مشترکہ بزرگ کاٹنے کو دوڑتے تھے۔ ٭ دال یا سالن کو اگر Curry اور کوفتوں کو Minced meat balls کہا جائے تو سارا گرم مسالہ اور بگھارانگریزی کے راستے نکل جاتاہے۔ ٭ جس نے نئے لفظ سے پہلی نظر میں پیار نہیں کیا، اس نے ابھی پڑھنا نہیں سیکھا۔ ٭ اس تھیٹر کو اداکاروں کی ایک کوآپریٹو سوسائٹی نقصانِ باہمی کی بنیاد پر چلا رہی تھی۔ ٭ انھوں نے اپنی ذات ہی کو انجمن خیال کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مستقل اپنی ہی صحبت نے ان کو خراب کر دیا۔ ٭ ضرغام الاسلام صدیقی ضرغوص، اکثر ناواقف اعتراض کر بیٹھتے ہیں ، بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا؟ لیکن ایک دفعہ انھیں دیکھ لیں تو کہتے ہیں ٹھیک ہی ہے۔ ٭ اختصار ظرافت اور زنانہ لباس کی جان ہے۔ ٭ نشے اور سوانح حیات میں بھی جو نہ کھلے اس سے ڈرنا چاہیے۔ ٭ مَیں خود نوشت سوانح کو سوانح عمری کے ساتھ کبھی نہیں رکھتا ، مزاح کی الماری میں رکھتا ہوں۔ ٭ عبید زاکانی کے بقول: فقیر کی گالی، عورت کے تھپڑ اور مسخرے کی بات سے آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٭ اُس زمانے میں لوگوں کی بینائی اتنی خراب نہیں ہوئی تھی کہ کسبیوں کی بستی کو ’بازارِ حسن‘ کہنے لگیں، چکلے کو چکلہ ہی کہتے تھے… ’بازارِ حسن‘ کی رومانی اصطلاح آگے چل کر ان ادیبوں نے عام کی جو کبھی زنانِ زُودیاب کی بکرمنڈی کے پاس سے بھی نہیں گزرے تھے۔ ٭ رسوا کے امراؤ جان ادا اور منٹو کے افسانوں کا ترجمہ اگر ابوالکلام کی زبان میں طوائفوں کو بالجبر سنایا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ دھندے ہی سے توبہ کر لیں۔ ٭ آج بھی ہندوستان میں فلمی گیتوں، ذومعنی ڈائیلاگ ، قوالی اور آپس کی مارپیٹ کی زبان اُ ردو ہے۔ ٭ ن م راشد کے جغرافیہ فراموش ہیرو کی طرح ہم اتنا بڑا دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ ’’اس کا چہرہ، اس کے خدوخال یاد آتے نہیں، اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے۔‘‘ اس لیے کہ اس صورتِ حال میں حافظہ سے زیادہ چال چلن کی خرابی نظر آتی ہے۔ ٭ مرزا کہتے ہیں کہ کلامِ غالب کی سب سے بڑی مشکل اس کی شرحیں ہیں، وہ نہ ہوں تو غالب کا سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دُگنا مزہ دیتا ہے۔ ٭ اخبار والے اب آدمی کہنے سے شرماتے ہیں، افراد اور نفوس کہتے ہیں۔ ٭ ہماری صحافت کے پاس سیدھے سادے اور سپاٹ لفظ Rape کے جتنے بھی مترادفات ہیں (خوبرو دوشیزہ کا دامن تار تار، منھ کالا کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار، ظالم بوڑھا شب بھر کم سن حسینہ کی عصمت سے کھیلتا رہا، نوخیز کلی کو ہوس کا نشانہ،درندہ صفت ملزم وقفے وقفے سے عصمت پر ڈاکا ڈالتا رہا) ان میں ایک بھی ایسا نہیں جس میں خود لذتیت یا جنسی لذت کشی کا عنصر شامل نہ ہو۔ ٭ ’توتے‘ کو اگر ط سے لکھا جائے تو نہ صرف یہ کہ زیادہ ہرا معلوم ہوتا ہے، بلکہ ’ط‘ کا دائرہ اگر ڈھنگ سے بنائیں تو چونچ بھی نظر آنے لگتی ہے۔ ٭ آج تک سوائے انسان کے کسی ذی روح نے اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر خود کشی نہیں کی۔ ٭ کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔ ہر ایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ ٭ دنیا میں جتنی بھی لذیذ چیزیں ہیں، ان میں سے آدھی تو مولوی صاحبان نے حرام کر دی ہیں اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔ ٭ ہندو شاستروں نے عورت کے ۴۰۴ چلتر بتائے ہیں مگر یاد رہے شاستر اس زمانے میں لکھے گئے تھے جب انسان کو ہزار تک گنتی نہیں آتی تھی۔ جناب انور مسعود نے اس نابغۂ روزگار کی وفات پر بجا طور پر کہا: کون لفظوں کو سکھائے گا تبسم خیزیاں وہ ظرافت کے قرینوں کا شناسا جا چکا