دوستو! یہ بیس جون ۲۰۱۸ء کی بات ہے کہ ایک مہربان دوست نے پُرسے کے انداز میں موبائل میسج پہ اطلاع دی کہ یوسفی صاحب گزر گئے۔ ٹی وی آن کیاتو ایک ایک چینل جنابِ یوسفی کے غم میں سوگوار دکھائی دیا ۔سوشل میڈیا سے رجوع کیا تو وہ یوسفی کے ماتم سے چھلک رہا تھا۔ شاعرِ مشرق کی وفات کے بعد مَیں نہیں سمجھتا کہ دنیائے ادب میں کسی قلم کار کی موت کو اتنے رقت انگیز انداز میں دیکھا گیا ہو۔ کئی دن تک لوگ آ آ کے بتاتے رہے کہ یار ! یوسفی صاحب سِدھار گئے۔ بعض لوگ حیرت اور حسرت سے دریافت کرتے رہے کہ کیا یوسفی کو بھی موت آ گئی؟ جب احباب کی جانب سے یوسفی صاحب سے اس قدر وابستگی اوردل بستگی تسلسل اختیار کرتی گئی اور ان کا ستانوے برس کی عمر میں جانا بھی قبل از وقت محسوس ہوا، تو صحیح معنوں میں یقین آتا چلا گیا کہ ایسے لوگ مرتے نہیں ، بس دنیا سے ہجرت کر کے دلوں میں مقیم ہو جاتے ہیں۔ لمحۂ موجود کے معروف شاعر شاہین عباس نے شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا: دل سے دل تک اسی خوشبو کا عمل جاری ہے دل سے دل تک جو علاقہ ہے وہ سارا اُس کا میں نے اُردو کے کم و بیش ہر مزاح نگار کو حسبِ توفیق و دستیابی پڑھا ہے لیکن مشتاق احمد یوسفی جیسا تکمیل پسند (Perfactionist) آج تک نہیں دیکھا۔ ان کی شخصیت اور فن دونوں یگانہ ہیں۔ وہ تعلیم کے میدان میں داخل ہوئے تو بورڈز اور یونیورسٹیوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے، ملازمت کرنے کی ٹھانی تو اس کی انتہائی بلندیوں کو جا چھوا، اور پھر جب تصنیف و تالیف کے کوچے میں قدم رکھا توادبی دنیا کو ایک انوکھے، نرالے اور اچھوتے معیار، اعتبار اور اقدار سے آشنا کر دیا۔ انگریزی کے ممتاز نقاد لان جائنس نے ادب میں ترفع (SUBLIME) کا نظریہ متعارف کراتے ہوئے لکھا تھا کہ بڑا ادب پارہ وہ ہوتا ہے جو محض اخلاقیات یا معلومات بہم نہ پہنچائے بلکہ اسے ذوقِ سلیم رکھنے والا ہر درجے کا قاری جب بھی پڑھے عش عش کر اُٹھے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تحریروں کو بلا شبہ اور بلا مبالغہ ’ترفع‘ کے اسی اعلیٰ معیار پر نہایت فخر اور اعتماد کے ساتھ پرکھا جا سکتا ہے۔ جناب مشتاق احمد یوسفی تشبیہ، استعارہ، موازنہ، تضاد، برجستگی، بذلہ سنجی، نغز، صورتِ واقعہ، رمز، مبالغہ، ایہام، رعایتِ لفظی، تحریف، علامت، ہزل، دشنام، عریانی اور طنز سمیت مزاح کے ہر حربے کو با لاستعداد و بالاستعجاب کام میں لائے ہیںاور ہر جگہ مزاح کے نتھرے اور بلیغ معیار کو قائم و دائم رکھا ہے۔ جملہ تراشنے اور ہر موقع و مزاج کے مطابق لفظ کھوجنے اور برتنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آیندہ اُردو کے بہت سے نادر و نایاب الفاظ لغات میں نہیں یوسفی جی بخشی ہوئی سوغات میں زندہ رہیں گے۔ ان کی آمد سے اُردو ادب اور بالخصوص اُردو مزاح کو وہ اعتماد اور عروج میسر آیا کہ وہ دنیائے ادبِ عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل ہو گیا۔ ’چراغ تلے ‘ سے ’شامِ شعرِ یاراں ‘تک انھوں نے نہ صرف اپنے اوجِ کمال کو برقرار رکھا بلکہ ان پچپن سالوں میں ان کے معیار کا سفراُفقی و عمودی سطحوں پر متواتر پھلتا پھولتا نظر آیا۔ ان کے ہاں ادق سے ادق موضوع بھی مہک مہک اٹھتا ہے اور عام سے عام ترکیب بھی لَو دینے لگتی ہے۔ شگفتہ منظر نگاری اور لطیف جزئیات رسی ان کے فن کی نمایاں جہتیں ہیں۔ بات سے بات پیدا کرتے ہوئے تو وہ موضوع اور ہدف کا اتنی دیر اور دور تک پیچھا کرتے ہیں کہ قاری کے قیاسات کا سانس ٹوٹنے لگتا ہے مگر حیرت ہے کہ ان کی تحریر کی ترو تازگی اور بے ساختگی پر اضمحلال کا ذرا سا شائبہ بھی دکھائی نہیںدیتا۔ان کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ خشک سے خشک مباحث سے بھی شگفتگی و شستگی کے بہتر سے بہتر امکانات پیدا کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موضوعات کی بنجر سے بنجر زمین بھی ان کے قلم کے لمس سے آشنا ہونے کے بعد لہلہانے لگتی ہے اور ان کے قدم رکھنے سے ویران سے ویران رہ گزر میںبھی چپکے سے بہار آ جاتی ہے۔ ان کی گوشہ نشینی ہمیشہ توشہ آفرینی پہ منتج ہوتی تھی۔ عام مزاح نگاروں میں اِن کی انفرادیت یہ ہے کہ یوسفی کا مزاح صرف ہنسنے ہنسانے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اِس کے اندر ایک فلسفہ، ایک ذہانت، ایک تفکر، ایک دانش، ایک رچاؤ، تہذیب کی گہری آمیزش، زبان پہ ضرورت سے زیادہ دسترس، معلومات کی لا مختتم بوچھاڑ،نیز انگریزی اور اُردو کے جدید اور کلاسیکل لٹریچر کا وسیع و وقیع مطالعہ ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی موضوع پر بات کریں، اِسے مسلسل گدگداتے، کھلکھلاتے اور تھپتھپاتے چلے جاتے ہیں۔ قدم قدم پر الفاظ کے اچھوتے استعمال سے معانی کی پھلجھڑیاں سی چھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔موضوع اور ماحول اِن کے قلم کے لمس سے چمک چمک جاتا ہے۔بات اِن کے علمی وفور سے چھلک چھلک اٹھتی ہے۔ زبان اِن کی مہارت اور بصیرت کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی۔ سچ ہے ایسی شخصیات کسی فرد، خاندان، ادارے، شہر، صوبے یا ملک ہی کا فخر نہیں ہوتیںبلکہ یہ عظیم لوگ تو زبانوں اور زمانوں کے امین ہوتے ہیں۔ ’’یوسفیات‘‘ اصل میں ایک رنگ، ڈھنگ یا آہنگ کا نہیں بلکہ ایک ادبی عقیدے کا نام ہے، اور یہ بھی طے ہے کہ ایک ادیب یا مزاح کا قاری ہونے کا دعویٰ رکھنے کے بعد اس عقیدے پہ ایمان لائے بغیر مرنا بھی کوئی مرنا ہے؟ یہ آرا اُردو ادب کے ان جغادریوں کی ہیں جن میں بعض بڑے سخت گیر قسم کے نقاد ہیں اور زیادہ تر ایسے ہیں جنھوں نے خود ایک مدت تک اِسی دشت کی سیّاحی کی ہے۔ اس لیے ان میں کسی سے بھی مدلل مدّاحی یا ستائش ِمحض کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آخر میں تبرک کے طور پر اور ان کی مغفرت کی دعا کی درخواست کے ساتھ اس عظیم سپوت کی تحریروں سے چند اقتباسات: ٭’’مسکراہٹ سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔ مسکراہٹ وہ معنی بھی ذہن نشین کرا دیتی ہے جو متن میں نہیں ہوتے۔ ٭مدت العمر سے شدت العمر میں مبتلا ہوں۔ ٭جب روپیہ اور ڈاکٹر دونوں جواب دے دیں تو ہومیوپیتھی سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ٭ساری عمر غلط قِبلے کی طرف سجدہ کرنے سے ملازم پیشہ شخص کے ضمیر پر سیاہ گِٹا پڑ جاتا ہے۔ ٭بزرگوں کا ادب اور احترام اپنی جگہ لیکن آرٹ اور ادب کی دنیا میں جو عزت فقط اور فقط سنِ پیدائش کی بنا پر کی جائے، وہ عزت کی ذلیل ترین صورت ہے۔ ٭ بہترین فکشن آج کل سفرناموں، آٹو بائیوگرافیز اور انکم ٹیکس گوشواروں کی شکل میں لکھا جا رہا ہے۔ ٭ٹونٹی کا کام تو لوٹے کو کفایت شعاری سکھانا ہے۔ ٭انسان خود اپنا مسبب المصائب ہے۔ ٭ جو شخص کراچی میں رہتے ہوئے کراچی کی برائی نہ کرے، اس کی بینائی اور گویائی دونوں میں شبہ ہے اور جو کراچی چھوڑنے کے بعد اُسے بے طرح یاد نہ کرے، اس کی معقولیت اور احسان مندی میں کلام ہے۔ ٭ حسِّ مزاح کی کاٹ اور تاب و تواں کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آدمی خود پر دوسروں کو کو ہنسانے کے ہنر سے واقف ہو۔ یہ سعادت و صلاحیت جتنی خدا داد و وہبی ہے، اس سے کہیں زیادہ انکسار و خود شکنی کی متقاضی ہے۔ ‘‘