یہ کوئی نئی خبر نہیں کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف زرداری ،میاں نوازشریف سے سخت ناراض ہیں اور انھیں ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں، انھوں نے اس موقف کا اظہار اتوار کو اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا ہے۔ان کے مطابق ان کی حکومت کی پالیسیاں نوازشریف کو پسند نہیں آئیں نیز یہ کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار میاں صاحب ہی ہیں ۔آصف زرداری نے دانستہ کھل کر پوری بات نہیں کی ۔دراصل 2014ء میں عمران خان کے دھرنے پر نوازشریف کی ڈولتی ہوئی حکومت کو زرداری صاحب کی جماعت نے ہی پارلیمنٹ میں سہارا دیا تھا ۔عمران خان کو یہ امید نہیں تھی کہ برسوں کے سیاسی مخالف ان کی یلغار کو روکنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کے کارپردازان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ اقدام نوازشریف کے لیے نہیں بلکہ جمہوریت کو بچانے کے لیے کیا ہے ۔ویسے آصف زرداری کا مفاد بھی اسی میں تھا کہ سسٹم چلتا رہے۔اس کے بعد اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا اور نوازشریف کی جان خلاصی ہو گئی لیکن بعدازاں2015ء میں جو ہوا اس کے نتیجے میں آصف زرداری کو عارضی طور پر جلاوطنی میں لندن جانا پڑ گیا ۔ا س دوران اگست 2015ء میں،میں نے آصف زرداری کا لندن میں انٹرویو بھی کیا ۔یہ وہ دور تھا جب وہ ملفوف انداز میں اس وقت کی فوجی قیادت کے بارے میںیہ کہہ چکے تھے کہ ’بلا دودھ زیادہ پی گیا ہے اور اینٹ سے اینٹ سے بجا دینگے‘ ۔جب میاںنوازشریف نے دیکھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آصف زرداری میں ٹھن گئی ہے توانھوں نے فوراً پینترا بدلا اور زرداری صاحب کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے کا دعوت نامہ آخری وقت پر منسوخ کر دیا ۔اسی موقع پر لندن میں زرداری صاحب نے مجھ سے کہا میاں نوازشریف سے کہیں وہ مغل اعظم کے بجائے وزیراعظم بنیں ۔اسی سال اگست میں جب آ صف زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کراچی واپس آئے تو ان کو اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے تحت دھر لیا گیا ۔یہ ان کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا لیکن اس معاملے میں بھی نوازشریف کی حکومت نے خود کو الگ تھلگ رکھا تھا ۔ گویا کہ زرداری کا یہ گلہ جائز تھا کہ نوازشریف نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی مدد نہیں کی ۔اس کے بعد جب ’پاناما گیٹ ‘ طشت ازبام ہونے پر میاں صاحب کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا تو وہ بطور علاج لندن چلے گئے ۔ صحت بحال ہونے کے بعد یہ احساس ہو چکا تھا کہ انھیں اب دوبارہ آصف زرداری کی مدد کی ضرورت ہے ۔پہلے تو انھوں نے ٹیلی فون پر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے پکڑائی نہ دی بالآخر انھوں نے ’’چھاپہ ‘‘مارنے کی ٹھان لی اور چند سینئر ساتھیوں کے ہمراہ لندن کے چرچل ہوٹل پہنچ گئے جہاں زرداری کا مستقل قیام ہوتا تھا لیکن یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ وہ ہوٹل سے چیک آؤٹ کر کے کسی اور مقام پر منتقل ہو چکے ہیں ۔ جب جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوئے تو آصف زرداری بھی وطن واپس لوٹ آئے لیکن میاں صاحب سے کوئی رابطہ نہیںکیا ،حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ آصف زرداری پھر نئی اسٹیبلشمنٹ کے بظاہر عتاب کا شکار نظر آ رہے تھے۔اسی تناظر میں انہوں نے عبوری ضمانت بھی کرا لی ،بعدازاں وہ اور برخوردار بلاول بھٹو میاںنوازشریف سے ان کی اہلیہ کے انتقال پر تعزیت کرنے کے لیے جاتی امرا پہنچ گئے ۔اگرچہ یہ ملاقات قطعی غیر سیاسی اور ذاتی تھی لیکن یہ آصف زرداری اور میاں نوازشریف کے درمیان تین برس بعد پہلا باضابطہ رابطہ تھا ۔کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، بالخصوص سیاست میں نہ تو مستقل حلیف ہوتے ہیں اور نہ ہی حریف ۔ اسی بنا پر آصف زرداری نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں برملا طور پر کہا ہے کہ تمام گلے شکوؤں کے باوجود نوازشریف سے بات ہو سکتی ہے۔مسلم لیگ (ن) کے بارے میں پیپلزپارٹی کے رویئے میں پہلے ہی تبدیلی آ چکی ہے ۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری ہوئی تو بلاول بھٹو زرداری اور سید خورشید شاہ نے دو ٹوک مذمت کی ۔اس وقت آصف زرداری کے بزنس پارٹنر انور مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید پابند سلاسل ہیںاور اربوں روپے کے فیک اکاؤنٹس کا ملبہ بھی آ صف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور پر ڈالا جا رہا ہے ۔اسی بنا پر شاید موصوف نے کہا ہے ذاتی طور پر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال شریف آدمی ہیں اور ان کے انتخاب میں یقیناً پیپلزپارٹی شامل تھی لیکن کرسی پر بیٹھنے کے بعد سوچ بدل جاتی ہے ۔صاف ظاہر ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی تک جو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان تال میل نظر آ رہا تھا وہ اب نہیں ہے۔آصف زرداری کے مطابق موجودہ حکومت کی نااہلی بھی کم وقت میں سامنے آ گئی ہے ۔ان کا مزید کہنا تھا نہ یہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ یہ ملک چلا سکتی ہے ،اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اس سلیکٹیڈ حکومت کے خلاف قرار داد لانا ہو گی ۔ یقینا گزشتہ دو ماہ میں موجودہ حکومت نے اچھی حکمرانی کے کوئی جھنڈے نہیں گاڑے، اقتصادی بدحالی کے حوالے سے جو مخدوش صورتحال سامنے آئی ہے اس سے نبٹنے کے لیے تاحال کوئی ٹھوس حکمت عملی عنقا ہے ۔وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ شاید آئی ایم ایف میں جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے جبکہ وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ جانا پڑے گا۔ اسے ستم ظریفی نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ کشکول توڑنے کے دعویدار اور یہ کہ ملک کے قرضے کئی گنا بڑھ گئے ہیں اسد عمر فرماتے ہیں کہ مزید قرضے لینے میں حرج ہی کیا ہے ؟اور جو لوگ اس بارے میں تنقید کر رہے ہیں ان کا سیاسی ایجنڈا ہے ۔اگر مشترکہ اپوزیشن کوئی قرارداد لے بھی آئے تو حکومت کو کوئی خطر ہ نہیں ہے کیونکہ جہاں جہاں سے اس کو خطرہ ہو سکتا ہے وہاںستوں خیراں ہیں لیکن وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ۔کل کو اگر حالات مزید دگرگوں ہوئے تو مشترکہ اپوزیشن عمران خان کی حکومت کے لیے ایک حقیقی خطرہ بھی بن سکتی ہے ۔اصولی طور پرتو موجودہ حکومت کو وقت دینا چاہئے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔اگر خان صاحب اپوزیشن کے خلاف چور چورچور کی رٹ لگائے رکھیں گے تو وہ کیونکر ان کی معاونت کرے گی؟۔