برطانیہ میں گزشتہ دنوں مقامی کونسلوں کے انتخابات ہوئے، پورے برطانیہ میں لوگوں نے اپنی مقامی علاقوں میں اپنے عوامی نمائندوں کاا نتخاب کیا۔ اس وقت لندن میں مقامی سطح پر عوامی مسائل کے حل اور ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 32 مقامی کونسلیں کام کر رہی ہیں، ان کونسلوں کو یہاں (Borough) کہا جاتا ہے۔ ہر بارو میں ایک میئر منتخب کیا جاتا ہے اور باقی کونسلوں کے وارڈز میں کونسلر منتخب ہو کر آتے ہیں۔ پھر ہر کونسل کا میئر اپنی کابینہ بھی تشکیل دینا ہے جن میں کونسلروں ہی کو آگے لایا جاتا ہے۔ لندن میں جن 32 مقامی کونسلوں (Borough) کا میں نے ذکر کیا ہے یہ تمام کونسلیں پورے لندن کے تمام علاقوں کو کور کرتی ہیں۔ مثلاً جس علاقے میں میں رہائش پذیر ہوں یہ (Newham Borough) کا علاقہ ہے جس میں مشرقی لندن کا پورا علاقہ East Ham، Manor Prk، Green Street اور Stratford کے علاوہ دیگر کئی علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ کل ملا کر 20 وارڈز پر مشتمل علاقہ ہے اس پورے علاقے کی آبادی 227، 318 افراد پر مشتمل ہے۔ یہ اعداد و شمار 2013ء کے مطابق ہیں جبکہ اب مقامی آبادی میں مزید اضافہ یقینا ہو چکا ہوگا۔ نیوہیم بارو میں عوامی سطح پر انتخاب لڑ کر منتخب ہونے والے عوامی نمائندوں (کونسلرز) کی کل تعداد اس وقت 60 ہے جبکہ اسی بارو میں میئر کا انتخاب بھی براہ راست انتخاب کے ذریعے ہی ہوا ہے۔ کونسلروں کی زیادہ تر تعداد پاکستانی، بھارتی، سری لنکن، بنگلہ دیشی اور مقامی انگریزوں پر مشتمل ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے اب ایک انگریز میئر Sir Roben Wales جوکہ 2002ء سے 2018ء تک اس مقامی کونسل کے میئر رہے ہیں۔ اب اس مرتبہ مقامی حکومتوں کے انتخاب میں اپنی میئرشپ سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان کی جگہ پاکستانی نژاد خاتون رخسانہ فیاض جوکہ اس علاقے میں کونسلر منتخب ہو کر آتی رہی ہیں۔ اب نیو ہیم بارو کی میئر منتخب ہوگئی ہیں۔ یہ خاتون اپنی عوامی سرگرمیوں اور چیرٹی ورک کی بنا پر ملکہ برطانیہ سے OBE آرڈر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں۔ New Ham بارو کی خاص بات یہ ہے کہ 2012ء میں اولمپک گیمز کی میزبانی بھی اسی بارو کے حصے میں آئی تھی، اس کی بنیاد پر مشرقی لندن کا یہ پورا علاقہ اب خاصا مہنگا علاقہ ہو گیا ہے۔ گھروں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں اور اس پورے علاقے میں کاروبار کو بھی فروغ حاصل ہوا ہے۔ اولمپک گیمز کے مقام پر اب West Ham فٹ بال گرائونڈ بن چکی ہے جوکہ ویسٹ ہیم کے نام سے اہم فٹ بال ٹیم مانی جاتی ہے۔ 4 مئی سے رخسانہ فیاض نے اپنا میئر کا عہدہ سنبھال کر کام شروع کردیا ہے۔ اس کونسل میں تمام کے تمام نومنتخب کونسلرز کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے جبکہ برطانیہ میں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی ہے اس کے باوجود اس کونسل کو ترقیاتی منصوبوں جن میں تعلیم، صحت، ہائوسنگ اور پولیس کے حوالے سے سالانہ بجٹ کی بنیادوں پر بھاری فنڈز بھی فوری طور پر فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ مقامی کونسلر اپنے اپنے علاقوں میں لائبریری سے لے کر عوامی پارک روڈ پھر عوامی ٹرانسپورٹ سے لے کر پولیس اور اسی طرح صحت اور صفائی کے سلسلے میں ترقیاتی کاموں میں برابر شریک ہیں۔ کونسلرز حضرات مستقبل بنیادوں پر عوامی سرجری بھی لگائے ہیں۔ عوام کو پیش آنے والے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ روزگار کے حوالے سے بھی خصوصی دفاتر کام کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو فنی تربیت اور تعلیم کے حوالے سے بھرپور عمل مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ مقامی طور پر وامی حکومتوں کے قیام میں سے ممکن ہوتا ہے۔ لندن میں جو 32 مقامی کونسلیں Borough کام کر رہی ہیں۔ ان میں 21 کونسلوں میں لیبر پارٹی، 10 کونسلوں میں حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی اور ایک کونسل میں لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی مقامی حکومت قائم ہوئی ہے۔ مشرقی لندن کے علاقے Manor Park جس جگہ میں عرصہ 16 سال قیام پذیر ہوں اس وارڈ میں ایک انگریز کونسلر Ken Clark اور دوسری کونسلر ایشیائی نژاد مریم دائود اور پھر تیسرے کونسلر سلیم پٹیل بھی ایشیائی نژاد ہیں۔ ہر وارڈ میں 3 کونسلرز منتخب ہو کر آئے ہیں۔ مقامی کونسلوں کے انتخابات ہوں یا برطانیہ کے قومی انتخابات اس دوران جو انتخابی مہم شروع ہوئی ہے وہ بھی بڑی دلچسپ ہوتی ہے یعنی گھر گھر خود امیدوار آ کر اپنا تعارف کرواتا ہے اور اپنی سابقہ کارکردگی اور آئندہ کا اپنا پروگرام بتاتا ہے۔ اپنا چھپا ہوا لیف لیٹ اور مختصر سا تعارف نامہ دے کر جاتا ہے نہ کوئی اشتہاری مہم نہ کوئی بینرز اور نہ ہی کوئی جلسہ اور پھر نہ کوئی جلوس۔ بس گھر گھر آ کر امیدوار ووٹرز کو اپنا پروگرام بتاتے ہیں۔ انتخابی اخراجات کی حد مقرر ہے۔ حتیٰ کہ لیف لیٹ کی چھپائی کا خرچہ باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ یہ کس جگہ سے پرنٹ کروائے گئے اور ان پر خرچہ کتنا آیا اور پھر اس کا خرچہ کس نے برداشت کیا۔ جس علاقے یعنی Manor Park میں رہتا ہوں، ہمارا ممبر پارلیمنٹ بھی ہمارا پڑوسی ہے۔ مسٹر سٹیفن ٹیمز جوکہ گزشتہ 20 سالوں سے اس علاقے سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتا آ رہا ہے۔ اس کا تعلق بھی لیبر پارٹی ہی سے ہے۔ ماضی میں مسٹر سٹیفن ٹیمز گورڈن برائون کی کابینہ میں جونیئر وزیر رہ چکے ہیں اور کئی مرتبہ شیڈو وزیر خزانہ بھی رہے ہیں ان کا پارلیمنٹ ہائوس جانے کا معمول انڈر گرائونڈ ریلوے سے ہوتا ہے اور اکثر اپنا سائیکل بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس علاقہ میں ان کا گھر بالکل اسی طرح کا ہے کہ جس طرح کامیرا اپنا گھر ہے۔ ایک چھوٹی سی کار ان کے پاس تھی جوکہ وزیر ہونے کی وجہ سے ان کو دی گئی تھی، یہ کار بھی بغیر ڈرائیور کے تھی یہ خود اس کار کو ڈرائیورکرتے تھے اپنے علاقے میں زیادہ تر وہ پیدل چل کرلوگوں سے ملاقات کرتے ہیں اور باقاعدگی سے عوامی سرجری بھی لگاتے ہیں۔ ان کے ساتھ نہ کوئی حفاظتی گارڈ اور نہ ہی بڑی بڑی گاڑیوں کا کوئی قافلہ، یہ عام شہریوں کی طرح میرے گھر کے قریب ہائی سٹریٹ اور شاپنگ سنٹرز پر خریداری کرتے ہیں۔ اب ذرا ایک نظر اپنے پاکستانی سیاست کے بے ہنگم نظام پر ڈالیں کہ اس سرزمین پر کیا ہورہا ہے۔ اب اس میں کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں کہ ہماری قوم کی بربادی اور تنزلی میں ہمارے اپنے حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ ہم نے بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کو جوکہ اب جاگیردار اور وڈیرے ہیں، کئی نسلوں سے اپنے علاقوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور ہم نے ان کو اپنے اوپر بطور حکمران مسلط کر رکھا ہے۔ یہ کسی طور پر بھی نہ تو عوامی نمائندے ہیں اور نہ ہی عوام دوست ہونے کا کبھی انہوں نے کوئی عملی مظاہرہ ہی کیا ہے۔ ذرا غور کریں کہ ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی کا ملک چین بڑی تیزی سے معاشی ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین میں اب دیانتدار، جرأت مند اور انتہائی قابل لیڈر عوامی نمائندے میں دنیا کی بیس فیصد سے بھی زائد آبادی والے ملک میں اب ہر طرح سے ہرشعبے میں اعلیٰ کارکردگی دکھائی دیتی ہے۔ اب چین میں عوامی نمائندوں نے اپنی حکومت کے ذریعے جس سوشل کریڈٹ سسٹم کا آغاز کیا ہے اس سے اقوام عالم کے ترقی پذیر ممالک کو ضرور کچھ سیکھنا چاہیے۔ اس سسٹم کے تحت عوامی سطح پر جس سوشل کریڈٹ کو چین میں نظام کا حصہ بنایا گیا ہے اس کے تحت ان کا بنیادی مقصد عوام میں اعتماد سازی ہے۔ حکومت یہ جاننا چاہتی ہے کہ قوانین کی پابندی، ٹیکس کی ادائیگی، سرخ اشارے پر رکنا، اپنے علاقے کو صاف ستھرا رکھنا، اس پر شہری کس قدر عمل کرتے ہیں ان میں عوامی نمائندوں کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ 2014ء میں شروع ہونے والا سوشل کریڈٹ سسٹم اب 2020ء تک پورے چین میں لاگو ہو جائے گا۔ اس وقت چین میں اس سسٹم کے تحت 12 شہروں میں کئی کروڑ چینی شہری اس نظام کے تحت رجسٹر ہو چکے ہیں۔ اس قانون کی برابر پابندی بھی کر رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت کریڈٹ سکور کی وجہ سے سماجی اور کاروباری زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ شہریوں میں کرپشن کا خاتمہ ہوگیا ہے، عوامی نمائندوں کے ذریعے حکومتی اہلکار عوام کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ کرپشن میں ملوث کئی سو چینی افسروں کو کڑی سزائیں دی گئی ہیں۔ برطانیہ اور چین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ برطانیہ میں مقامی حکومتوںکا نظام جن میں زیادہ تر ایشیائی نژاد عوامی نمائندے مقامی حکومتوں میں شامل ہو کر اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے بھی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مقامی حکومت کا حصہ بن کر کیا تھا۔ وہ کونسلر منتخب ہو کر اپنے علاقے میں سرگرم ہوئی تھیں جس کے بعد وہ وزارت کے عہدے تک آئیں۔ وزیر داخلہ بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور پھر وزیراعظم کے عہدے پر آئیں۔ اسی طرح اب برطانیہ میں عام شہری جن میں صادق خان، ساجد جاوید اور سعیدہ وارثی جیسی شخصیات بھی اب حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان میں بھی ممکن ہے۔ مقامی حکومتوں کے ذریعے اعلیٰ سطح تک باکردار عوامی نمائندوں کو لانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ عوام میں بے پناہ صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں۔ جوکہ عوامی نمائندے بن کر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرلی جائے اور نچلی سطح تک عوامی حکومتوں کے ثمرات کوی قینی بنایا جائے۔ یہ اسی صورت میں ہے کہ کرپٹ عناصر کو کڑی سزائیں دی جائیں۔