مشرق وسطیٰ میں اہم واقعات ہو رہے ہیں۔ سر فہرست ترکی کے الیکشن ہیں جو بیک وقت صدارتی بھی تھے اور پارلیمانی بھی اور دونوںمیں صدر طیب اردوان کی جماعت آق پارٹی (بمعہ اتحادی) جیت گئی۔ یورپ بھر میں میڈیا کو یقین تھا کہ آق پارٹی صدارتی انتخاب میں 50فیصد سے زیادہ ووٹ کی لازمی حد تک نہیں جا سکے گی اور الیکشن کا دوسرا رائونڈ ہو گا اور اس میں شاید اردوان جیت جائیں اور جہاں تک پارلیمنٹ کے الیکشن کا تعلق ہے تو وہ تو آق پارٹی کے جیتنے کا سوال ہی نہیں ہے وہ لازماً اکثریت کھو دے گی اور یوں اردوان کے بطور صدر اختیارات محدود کردے گی لیکن اے بسا ہر دو آرزو بری طرح خاک شدہ۔ اردوان نے 53فیصد ووٹ لئے اور ان کے قریب ترین حریف ری پبلک پارٹی کے امیدوار محرم السنے 30فیصد تک ہی رہ گئے۔ ایک رات قبل السنے نے دارالحکومت استنبول میں ایک بڑا جلسہ کیا جس میں دس لاکھ افراد شریک ہوئے یورپی برادری اس جلسے کو ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ سمجھ رہی تھی حالانکہ اردوان اس سے بڑے کئی جلسے کر چکے ہیں۔ انتخابی نتائج آنے سے ایک گھنٹہ پہلے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کی کہ آق پارٹی پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکے گی لیکن وہ چھ سو میں سے لگ بھگ ساڑھے تین سو سیٹیں لے اڑی۔ یہ الیکشن نظام کے لیے ریفرنڈم بھی تھا اب عملاً ترکی میں صدارتی نظام نافذ ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم کے اختیارات محض نمائشی ہو جائیں گے۔ ترکی جیسے ملکوں میں جہاں کسی ایک قوم کی غالب اکثریت ہو‘ صدارتی نظام قابل عمل ہے ترکی میں ترکوں کی بھاری اکثریت ہے جس طرح کہ برطانیہ میں انگریزوں کی۔ ایران میں فارسیوں کی‘ امریکہ میں انگریزوں کی‘ چین میں ھان کی ‘ بنگلہ دیش میں بنگالیوں کی بھاری اکثریت ہے لیکن جن ملکوں میں کسی ایک قوم کی بھاری اکثریت نہ ہو جیسے کہ پاکستان (پنجابی48فیصد بھارت(ہندی45سے 48فیصد) نائجیریا (ہائوسا30فیصد) ان میں صدارتی نظام تباہ ہوتا ہے۔ نتائج سے معلوم ہوا کمالزم کے حامی محض 30فیصد رہ گئے۔ باقی ماندہ ووٹ کرد اور دوسری چھوٹی اسلامی اور جمہوری جماعتوں کو ملے۔ ترکی اب مشرق وسطیٰ میں آسانی سے اپنی اس پالیسی کو بڑھا سکے گا جو آق پارٹی نے بنائی ہے۔ ماضی قریب میں حکومت کو فوج کا مطلوبہ تعاون نہیں تھا اب فوج آئین کی تابعدار ہے اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والی تبدیلیوں میں ترکی کا کردار مزید بڑھے گا۔ خاص طور سے شام‘ عراق اور فلسطین کے حوالے سے اس کے علاوہ اندرون ملک صدر اربکان اسلامائزیشن کے پروگرام کو قدرے آسانی اور سبک رفتاری سے آگے بڑھا سکیں گے۔ ٭٭٭٭٭ دوسری اہم تبدیلی یا پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ اردن میں سعودی عرب کے اصل حکمران یعنی ولی عہد محمد سلمان اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے۔ سعودی اتحادی متحدہ عرب امارات کے حکام بھی الگ طور پر اسرائیلی حکام سے ملے ہیں۔ ملاقاتوں میں امریکی سفارت کار بھی موجود تھے۔ ان ملاقاتوں میں ایران کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر بات ہوئی۔ یہ تعاون فلسطین کے مسئلے کے ایک حل پر متفق ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ خاص طور سے غزہ میں امن چاہتے ہیں۔ ان کا منصوبہ ہے کہ اسرائیل کو غزہ کا محاصرہ ختم کرنے پر آمادہ کیا جائے اور ساتھ ہی غزہ میں قائم حماس کی حکومت کو بھی امن کی شرائط ماننے پر آمادہ کیا جائے اور یہ کام سعودی عرب کے بغیر نہیں ہو سکتا جس کی متوقع بھاری مالی امداد غزہ حکومت کو رویہ بدلنے پر قائل کر سکتی ہے۔ اگر صدر ٹرمپ اس مقصد میں بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی مجموعی طور پر فلسطین کا معاملہ بدستور حل طلب رہے گا کیونکہ یہ حل تبھی ممکن ہے جب کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی روح کے مطابق دو ریاستی فارمولے کو جوں کا توں مانا جائے جس کے لیے اسرائیل تیار نہیں ہے۔ اس فارمولے کے مطابق مغربی کنارہ پورے کا پورا فلسطین کا حصہ ہے لیکن عملاً صورتحال یہ ہے کہ اس علاقے میں سے کم از کم 30فیصد رقبے پر اسرائیل نے اپنی بستیاں تعمیر کر لی ہیں اور کون ایسا اسرائیلی وزیر اعظم ہو گا جو ان بستیوں کو لپیٹ دے۔ پھر ایک اہم نکتہ بیت المقدس ہے جس میں سارا عالم اسلام فریق ہے۔ معاہدے کی رو سے قدیم یروشلم فلسطینی حکومت کا حصہ ہے لیکن اسرائیل نے سارے کا سارا یروشلم اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور امریکہ نے اس قبضے کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔ بہرحال غزہ پر ٹرمپ کا پلان کچھ نہ کچھ آگے بڑھے گا۔ اسے تقریبا یقینی کہا جا سکتا ہے ترکی میں اردوان کی مضبوطی سے دراصل ٹرمپ کے ہاتھ (اس معاملے میں) مضبوط ہوں گے۔ ٭٭٭٭٭ تیسری پیشرفت دلچسپ ہے۔ ایران نے بیان جاری کیا ہے کہ اس کے اگلے مورچے عراق‘ شام اور لبنان ہیں۔ ماضی میں یہ بیان درجنوں بار دیا جا چکا ہے لیکن اس میں مورچوں کی تعداد تین نہیں‘ چار ہوا کرتی تھی یعنی یمن اس بار اس فہرست سے خارج ہے۔ یہ سہواً تو ہو نہیں سکتا۔ شمالی یمن کی واحد بڑی بندرگاہ الحدیدہ (اس کے ہجے ال حدائے دا ہیں‘ یہ الحدید(لوچے) سے نہیں ہے) پر سعودی اتحادی کی فوج نے جو یلغار کر رکھی ہے اس نے یمن کی جنگ کے گویا پہلے کلائمکس کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سال ڈیڑھ پہلے سعودی اتحاد نے الموخا کی بندرگاہ حوثیوں سے چھین لی تھی۔ وہ بھی اہم واقعہ تھا لیکن اگر الحدیدہ بھی حوثیوں سے چھن جاتا ہے تو یہ فیصلہ کن واقعہ ہو گا اگرچہ جنگ پھر بھی کچھ عرصہ چلتی رہے گی۔ الحدیدہ بحیرہ قلزم(احمر) کے ساحل پر واقع ہے آٹھ نو لاکھ آبادی کا یہ شہر ہر لحاظ سے حوثی قبضے کی شہ رگ ہے۔ اس پر یمنی حکومت کے قبضے کی ابتدائی جھڑپوں میں ایک ہزار کے قریب حوثی باغی مارے گئے۔ یہ لوگ صرف ایک ہفتے میں ہلاک ہوئے اور یمنی جنگ کی تاریخ میں حوثیوں کا اتنا بڑا نقصان اس سے پہلے ایک ہفتے تو کیا کئی مہینوں میں بھی نہیں ہوا۔ یمن کی سرکاری فوج نے اس معرکے میں الحدیدہ کا انٹرنیشنل ایئر پورٹ حوثیوں سے چھین لیا جو شہر سے چار کلو میٹر جنوب میں واقعہ ہے۔ یمنی فوج کا فوری ہدف الحدیدہ کی بندرگاہ ہے لیکن حوثیوں کا دفاع یہاں اتنا مضبوط ضرور ہے کہ ایک لمبی جنگ جو شاید کئی ہفتے چلنے کے بعد ہی یہ شہر فتح ہو سکے گا اور اس دوران شہریوں کا جانی نقصان بھی بہت زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ چار سال کی جنگ میں اب تک دس ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ الحدیدہ کے بعد شمال میں محض پچاس ساٹھ کلو میٹر لمبا ساحل بھی حوثیوں کے قبضے میں رہ جائے گا جو دو طرف سے گھیرے میں ہو گا اس کے شمالی سرے پر ایک چھوٹی سی بندرگاہ حراض کے نام سے ہے جس پر پہلے ہی یمنی حکومت قبضہ کر چکی ہے۔ یمن کی جنگ کتنی بھی لمبی چلے‘ حوثیوں کی شکست یقینی ہے۔ بحران پھر بھی رہے گا کیونکہ شمالی یمن کے معتدبہ حصے میں حوثیوں کی اکثریت ہے۔ بعض مغربی اخبارات یہ لکھ چکے ہیں کہ یمنی حکومت یہ چاہتی ہے کہ صنعا حوثیوں سے واپس لے کر جنگ ختم کر دی جائے یعنی حوثی صعدہ اور ملحقہ دو تین صوبوں تک محدود ہو کر رہ جائیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس نتیجے پر ایران حکومت بھی پہنچ چکی ہو۔ لیکن اس کے باوجود شام اور عراق کو اپنا اگلا مورچہ بنانے کی اس کی خواہش بدستور خوش فہمی ہے۔ شام سے ایران کو نکلنا ہی ہے اور عراق میں شیعہ اکثریت کے باوجود عرب قوم پرستی کا غلبہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے عرب ممالک کے قریب لائے گا نہ کہ ایران کے۔