ایک ہی روز میں پاکستان کے مشرقی اور مغربی ہمسایوں کی جانب سے سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ سے مجموعی طور پر 5 فوجی جوان شہید ہوئے ہیں۔ جوابی کارروائی میں دو افغان شرپسندوں کی ہلاکت اور متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ دفتر خارجہ نے افغان ناظم الامور اور بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے ان واقعات پر شدید احتجاج کیا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے جاری تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سرحدی علاقے دیر میں پاکستان کے سکیورٹی اہلکار بارڈر پر باڑ لگانے میں مصروف تھے کہ ان پر افغان علاقے سے فائرنگ کر دی گئی۔ دوسرے علاقے میں شمالی وزیرستان میں پٹرولنگ پارٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے جس میں ایک سپاہی شہید ہوا۔ ایل او سی پر فرائض انجام دینے والا نارووال کا رہائشی حوالدار اور ایک مقامی خاتون بھارتی فائرنگ سے شہید جبکہ 6شہری زخمی ہوئے۔ بھارت اور افغانستان دو ایسے ہمسائے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان طویل عرصے سے سکیورٹی مسائل کا شکار ہے۔ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ افغانستان اور بھارت سٹرٹیجک تعلقات کی آڑ میں ایسے منصوبوں میں شراکت دار ہیں جن کا مقصد پاکستان کے معاشی و دفاعی مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازع کشمیر کا ہے۔1947ء سے لے کر آج تک یہ تنازع لاکھوں جانیں لے چکا ہے۔ تنازع کشمیر کی وجہ سے پورے خطے کی ترقی کا عمل رک چکاہے۔ بھارت کی جانب سے 5اگست 2019ء کو یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر دی گئی۔ ایسا اقدام اٹھانے سے پہلے بھارتی افواج کی تعداد میں اضافہ کر کے مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر کے سامنے بندوق بردار فوجی کھڑے کر دیے گئے۔ گزشتہ 40روز سے یہ بھارتی اہلکار کشمیریوں کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان نے مظلوم کشمیریوں کے لئے اقوام متحدہ، او آئی سی، یورپی یونین اورچھوٹے بڑے دوسرے پلیٹ فارمز پر بھر پور آواز بلند کی ہے۔ عالمی میڈیا مسلسل کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر رہاہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور عالمی برادری بھارت کے مقابلے میں پاکستان اورکشمیریوں کے موقف پر توجہ دے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال بھارت کی جھنجلاہٹ کا باعث بن رہی ہے۔ چند روز قبل امریکہ میں بھارت کے سفیر نے بدحواسی میں امریکی میڈیا پر جانبداری کا الزام عاید کر دیا۔ بھارت عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری کرفیو سے ہٹانا چاہتا ہے۔ کنٹرول لائن پر فائرنگ اور حملوں کے ذریعے اسے توقع ہے کہ وہ عالمی توجہ کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ کی زد میں عام طور پر سویلین آبادی آتی ہے۔ حالیہ واقعہ میں بھی شہید ہونے والی خاتون اور متعدد زخمیوں کا تعلق سویلین آبادی سے ہے۔ شہری آبادی کو نشانہ بنانا ایک سنگین جنگی جرم ہے مگر بھارت کسی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں لائے بغیر یہ جرم کئے جا رہا ہے۔ دوسرے ہمسائے افغانستان میں امن اور استحکام کی خاطر پاکستان کی قربانیاں لازوال ہیں۔ چار عشروں سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں۔ ان مہاجرین کی دو نسلوں نے اپنے ملک کو دیکھا تک نہیں۔ آج بھی پاکستان میں رجسٹرڈ افغانوں کی تعداد 15لاکھ سے زاید ہے جن کی خوراک اور دوسری ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ پاکستان نے سوویت یونین کے حملے کے بعد افغانوں کی مدد کی‘ سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغان مجاہدین کو مدد فراہم کی کہ وہ اپنے ملک میں سیاسی نظام کو مضبوط بنا سکیں۔ طالبان کے دور میں پاک افغان تعلقات میں بہتری دکھائی دی تاہم نائن الیون نے صورت حال کو تبدیل کر دیا۔ پاکستان کو امریکہ اور نیٹو کے جارحانہ اقدامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بھارت نے امریکہ کی مدد سے افغانستان میں اپنے خفیہ آپریشن کئے۔ افغان سرزمین کو استعمال کر کے بھارت نے پاک ایران اور پاک افغان تعلقات خراب کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں جاری رکھیں تو پاکستان نے سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت جنرل راحیل شریف پاک فوج کی کمانڈ کر رہے تھے۔گزشتہ چھ برسوں کے دوران پاک افغان سرحدی علاقوں میں ایسے درجنوں واقعات ہو چکے ہیں جن میں افغان شرپسندوں کی فائرنگ یا حملے میں پاکستانی اہلکاروں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ سرحد پر باڑ لگنے سے دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکی جا سکے گی۔ جن علاقوں میں یہ باڑ لگ چکی ہے وہاں اس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعدایسی شخصیات کو حکمران بنایا جاتا رہا ہے جو اپنی عمومی سوچ کے لحاظ سے بھارت نواز اور پاکستان مخالف سمجھی جاتی ہیں۔ حامدکرزئی ‘عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے زہریلے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔ ان شخصیات نے ڈیورنڈ لائن کے طے شدہ معاملے کو متنازع کہہ کر بھارت کی ان کوششوں کو مدد فراہم کی ہے جن کے ذریعے وہ پاکستان کی تمام سرحدوں کو غیر محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ 2640ء کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد پر کشیدگی کا مطلب پاکستان کی توجہ لائن آف کنٹرول اور پاک بھارت سرحد سے ہٹانا ہے۔ دفتر خارجہ نے دونوں ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ سفارتی اہلکاروں کو طلب کر کے ضابطے کے تحت کارروائی کی اور اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت دیا ہے مگر افغانستان سے امریکی انخلا اور تنازع کشمیر کے حل کے بغیر یہ شرپسندی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ قوم اپنے سرحدی محافظوں کی قربانی کو سلام پیش کرتی ہے۔