کشمیر کا تنازعہ واحد عالمی اِیشو ہے،جو 73سال گزرنے کے باوجود ہندوستان کی ہٹ دھرمی کی بدولت حل نہیں ہوسکا۔1947ء میں پاکستان اور بھارت کے آزاد ہونے سے لیکر آج تک بھارت کی ہٹ دھرمی کشمیر کے عوام کو ان کا بنیادی حق یعنی آزادی دینے کی راہ میں رکاوٹ ہے جبکہ شروع سے ہی بھارت کا رویہ گمراہ کن رہا ہے اور بھارت اپنے عوام سمیت اقوامِ عالم کو غلط اور جھوٹ پر مبنی معلومات فراہم کرتا رہا ہے، جِس کی تازہ مثال بھارتی آرمی چیف کا جمعرات تین فروری کو دیا گیا بیان ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لائن آف کنٹرول (اَیل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ اور بندوبست اِس لیے ہوا تھا کہ بھارت نے ’’طاقت کی پوزیشن‘‘ سے مذاکرات کیے تھے۔ 740 کلومیٹر طویل ایل او سی کے دونوں اَطراف گزشتہ سال فروری تک بلا اشتعال توپ خانے کی گولہ باری اور فائرنگ روزمرہ کا معمول تھی البتہ فروری 2021 ء میں ہندوستان اور پاکستان 2003 ء کی جنگ بندی کے باہمی معاہدہ پر عمل کرنے کے لیے دوبارہ راضی ہوئے جس سے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کے کشمیری عوام کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا تھا۔ پاکستان کے لیے تشویش یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فوجی جھڑپوں اور گولہ باری سے ایل او سی کے دونوں جانب رہنے والے کشمیری براہِ راست متاثر ہوتے ہیں،جن کا مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے پاکستان نے 2003ء میں جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق کیا اور فروری 2021ء میں بھی صرف کنٹرول لائن کے دونوں طرف رہنے والے کشمیری لوگوں کے تحفظ کے لیے پاکستان سیز فائر کے معاہدے پر متفق ہوا۔ کشمیر کے تنازع میں چند بنیادی نکات سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہندوستان کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا جواب دیا جا سکے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان نے جِس ڈاکومنٹ Instrument of Accession کی بنیاد پر کشمیر کے الحاق کا دعوی کیا ہوا ہے، اِس کے مستند ہونے پر غیر ملکی اور نیوٹرل محققین نے سوالات اٹھائے ہیں۔ Alastair Lamb نے اپنی کتاب" Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990" میں اور Victoria Schofieldنے اپنی کتابKashmir Conflictin: India Pakistan and the Unending War میں اِس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت نےInstrument of Accession کا طریقہ کار مکمل ہونے سے پہلے ہی کشمیر میں اپنی افواج بھیج دی تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم کے برطانوی فارمولے کے تحت ریاست جموں و کشمیر کا مہاراجہ ہری سنگھ عوام کی اکثریت کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کا پابند تھا مگر ہندو مہاراجہ نے اِس طریقہ کار کی خلاف ورزی کی اور دو مہینے تک اِس اِیشو کو لٹکائے رکھا جس کا نتیجہ ہندوستان کی کشمیر پر جارحیت کی صورت میں برآمد ہوا اور مہاراجہ کے اِس فیصلے کا خمیازہ کشمیری مسلمان سمیت جنوبی اِیشیا کی ڈیڑھ ارب کی آبادی اَبھی تک بھگت رہی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کا مؤقف یہ ہے کہ1972ء کے شملہ معاہدے کے بعد پاکستان کسی بھی عالمی فورم پر کشمیر کے معاملے کو نہیں اٹھا سکتا کیونکہ ہندوستان کے بقول شملہ معاہدے کے بعد کشمیر کی حیثیت کم ہو گئی ہے اور اب یہ عالمی ایشو کی بجائے دونوں ملکوں کا باہمی معاملہ ہے جِس پر صرف باہمی فورم پر ہی بات چیت ہوسکتی ہے۔ حالانکہ شملہ معاہدہ میں اِس قسم کی پابندی کا ذکر نہیں بلکہ شملہ معاہدے کی پہلی سطر کہتی ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصول اور مقاصد پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو کنٹرول کریں گے،جِسکا واضح مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کو شملہ معاہدہ پر فوقیت حاصل ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو بھی فریقین کے مابین ہونے والے معاہدے پر سبقت حاصل ہے۔ لہٰذا ہندوستان کا مؤقف، کہ شملہ معاہدے کے بعد پاکستان عالمی فورم پر کشمیر کا ایشو نہیں اٹھا سکتا، درست نہیں ہے۔ اَلبتہ شملہ معاہدہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کو پابند کرتا ہے کہ کوئی بھی ملک یک طرفہ طور پر سرحدی حدود میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں کرے گا جب تک کشمیر کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو جاتا۔ 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر (جس میں لداخ بھی شامل تھا)کو تقسیم اور اس کی حیثیت مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں (یونین ٹیریٹریز) میں بدل دی ہے۔ یعنی جموں و کشمیر اور لداخ۔ کشمیر کے عوام کو آرٹیکل 370 کی نسبت شق 35 اے کے خاتمہ پر زیادہ تحفظات ہیں کیونکہ 35 اے کشمیروں کو خصوصی حقوق فراہم کرتا ہے جس کے تحت کسی بھی غیر مقامی شخص کو کشمیر کی شہریت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اسے کشمیری ڈومیسائل جاری کیا جاسکتا ہے۔ اِس شق کے تحت کسی بھی غیر مقامی فرد کے کشمیر میں جائیداد خریدنے پر بھی پابندی تھی البتہ کشمیری تمام ہندوستان میں کہیں بھی جائیداد خرید سکتے تھے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق، شق 35 اے کے خاتمے کے بعد سے ریاست جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کے لیے غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے اور انہیں ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں۔ میڈیا کی اِطلاعات کے مطابق جموں و کشمیر میں نئی حلقہ بندیاں کی جا رہی ہیں، جِس کے تحت جموں کی سیٹیں 37 سے 43 کردی جائیں گی اور کشمیر کی سیٹیں 46 سے 47 کر دی جائیں گی جبکہ پندرہ مسلم اکثریتی علاقوں کی سیٹوں کی حد بندی میں اِس طرح سے تبدیل کرنے کی تجاویز ہیں تاکہ ہندو امیدوار وہاں سے کامیاب ہوسکیں۔ ہندوستان میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کاعمل 2026 ء میں ہونا ہے جبکہ صرف کشمیر میں حد بندی کا قبل از وقت کرانا بذاتِ خود سوالیہ نشان ہے۔ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں قبل اَز وقت اِنتخابی حلقہ بندیوں کے عمل کو کشمیری مسلمانوں کی سیاسی قیادت نے رد کردیا ہے تاہم مودی حکومت روایتی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے کشمیری عوام کی آزادی کی خواہش کو کچلنے کے اَپنے مشن پر عمل پیرا نظر آتی ہے جِس کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہئے۔