یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے کے عروج کے دن تھے۔ ہماری قومی ایئرلائن اپنے پر پھیلا رہی تھی۔ ایئرلائن نے ایک چھوٹا سا جہاز خریدا جس کا نام غالباً ٹوائن اوٹر تھے۔ اس میں 12مسافروں کے بیٹھنے کے گنجائش تھی۔ مقصد یہ تھا کہ ان شہروں کو بھی پی آئی اے کا سنٹر بنایا جایا جہاں عام طور پر ہوائی سفر نہ ہوتا تھا۔ اس کام کے لیے پہلی پرواز لاہور سے سرگودھا طے پائی۔ ان دنوں موٹروے ابھی بنی نہ تھی۔ اس لیے خیال کیا گیا کہ شاید یہ ایک کامیاب پرواز ہوگی۔ یہ ٹوائن اوٹر کی ایک تصویر چھپی، جہاں یہ جمبو 747 کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں ان دنوں اشتہاری ایجنسی کے مشیر کے طور پر کام کرتا تھا، جو پی آئی اے کے لیے کام کرتی تھی۔ میں نے جھومتے ہی شرارت آمیز لہجے میں کہا کہ اس کا اشتہار تو یہ ہو گا کہ میں چھوٹا سا ایک بچہ ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔ ان دنوں لیجنڈی عمر قریشی پی آئی اے سے ریٹائر ہو چکے تھے‘ تاہم اس کام کے لیے ان کی خدمات حاصل کی گئیں، جنہوں نے ایک بہت ہی سنجیدہ لائن لکھی۔ انسان مشین سے برتر ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت یاد آئی، جب یہ طے کیا جارہا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے مشینی طریق کار اختیار کیا جائے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں دھاندلی ممکن نہ رہے گی ،گویا یہ سوچا جا رہا ہے کہ مشین انسان سے بالاتر ہے۔ اس خیال پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، البتہ شک ہے کہ یہ دھاندلی ختم کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ مشین انسانی ذہن کو مات نہیں دے پائیں۔ سب سے اہم شعبہ مثال کے طور پر روپے پیسے کے لین دین کا ہے‘ بنکاری کا ہے۔ ہمارے ذہن کی خیانت نے اس حوالے سے بھی ایسے اسے طریقے ایجاد کئے ہیں کہ ہر روز بڑے بڑے فراڈ ہوتے ہیںاور پکڑے نہیں جاتے۔ بھارت میں جب پہلے پہلے اس کاتجربہ ہوا، تو بڑے مسائل پیدا ہوئے۔ ہمارے کنور دلشاد ان امور کے ماہر ہیں‘ وہ بتاتے ہیں کہ ایسی ایسی دھاندلیاں ایجاد ہوئیں کہ الیکشن کمیشن نے اس مشین کے استعمال سے معذرت کرلی۔ سوچا تھا کہ احمد بلال محبوب سے پوچھوں گا کہ وہ اس شعبے کے ماہر ہیں اس میں دھاندلی کے کیا کیا امکانات ہیں۔ بہرحال میرا مطلب یہ بتانا نہیں کہ مشین بہت بری چیز ہے۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ مشنین دھاندلی کرنا چاہیں تو انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ صرف ایک بات دھاندلی کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتی ہے اور وہ انسان خود ہے ،جو عظیم تر ہے۔ وگرنہ ہم دیکھتے رہ جائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں آر ٹی ایس قسم کا ایک تجربہ ہوا تھا۔ کیا انجام ہوا اس کا۔ انسانی ذہن ایسا خبیث ہے کہ آنی پر آ جائے تو ہر شے کو ناکام کردیتا ہے۔ چنانچہ حل مشین نہیں ہے بلکہ انسان خود ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مشینوں پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مشینوں سے زیادہ انسانوں پر انحصار کرنا ہوگا۔ یہ تو تیرا فلسفہ ہو گیا۔ اصل میں ہم فواد چودھری بنے ہوئے ہیں۔ اعلان کردیتے ہیں کہ ہم نے چاند دیکھنے کا نظام دریافت کرلیا۔ پورے سال کا بلکہ پوری صدی کا کیلنڈر تیار کرلیا۔ گویا یہ کون نیا عجوبہ ہے، جب ہم نے اکیسویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی خدمات سنبھالتے ہی ڈھونڈ نکالا تھا۔ اسلامی دنیا میں کیلنڈر بنانے کا تجربہ نیا نہیں ہے۔ زمینوں اور آسمانوں کی گردش برسوں سے انسان کی دسترس میں ہے۔ پاکستان میں آج بھی بوہری کمیونٹی بڑی خاموشی سے مصری کیلنڈر کے مطابق عید ادا کرتی ہے اور روزے رکھتی ہے۔ یہ وہ کیلنڈر تھا جو قاہرہ میں قائم خلافت فاطمیہ نے تیار کرایا تھا۔ اس خلافت کی تباہی کے بعد یہ لوگ دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک آغا خانی دوسرے بوہری۔ یہ بوہری خاصے علمی ذوق رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کی علمی روایت میں آج بھی یہ کیلنڈر رائج ہے۔ سو بحث یہ ہے ہی نہیں کہ صدیوں کی تقویم پر محیط کیلنڈر بنانے کا کام ہو سکتا ہے یا نہیں۔ یہ بھی اب طے ہے کہ اس میں کیا ممکنہ خرابی رہ سکتی ہے یا اسے کیسے خرابیوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ڈھینگی مارنے کا بہت شوق ہے۔ اب اسی وزارت میں فواد چودھری نہیں۔ ان کے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ہم نے جو وینٹی لینٹر بنانے کا دعویٰ کیا تھا اس میں کیا کوتاہی تھی۔ اب اگر یہ کام شبلی فراز کرتے تو بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ ایسی مشین بنا لی جائے گی جو دھاندلی نہ ہونے دے گی۔ دیکھئے‘ ایک چھوٹی سی بات ہے، ہم نے بائیو میٹرک کا چرچا کیا کہ ووٹ کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے آپ کے ہاتھ کی لکیروں سے مدد لی جائے گی۔ آج ہر بینک میں اور ہر سرکاری معاملے میں اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر ہو یہ رہا ہے کہ ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد میں انگوٹھے کی لکیریں کام ہی نہیں کرتیں۔ ان میں 95 فیصد سے زیادہ مٹ چکی ہوتی ہیں‘ سو بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ یہ قطعاً ناکام ہے‘ ہاں مگر قعطاً کامیاب نہیں ہے۔ اصل بات یہ کی ہے جیساکہ میں نے عرض کیا کہ انسان عظیم ہے ۔ اس وقت ماہرین یہ تک کہتے ہیں کہ پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس بھارت کے الیکشن کمیشن سے زیادہ اختیارات ہیں۔ بات ان کے استعمال کی ہے۔ ایک برس ہم نے کہا کہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں ہوں گے۔ ایسا ہوا اور ہم نے شور مچا دیا کہ جسٹس افتخار چودھری کے بندوں نے گڑ بڑ کی ہے۔ عدلیہ پر اعتبار اٹھ گیا۔ پھر کہا فوج کی نگرانی میں ہوں گے۔ بعد میں اعتراض کیا پولنگ بوتھ کے اندر بھی فوجی اور باہر بھی فوجی۔ گویا فوج نے اپنے مقصد سے نتائج نکال لئے۔ اب کس پر اعتبار کیا جائے۔ عدلیہ نہ فوج تو کون کرائے۔ سندھ میں حالیہ ضمنی انتخابات محکمہ تعلیم کے اساتذہ کی مدد سے کیا گیا۔ اب پھبتی کسی جا رہی ہے کہ محکمہ زراعت کی ضرورت نہ پڑھ جائے‘ محکمہ تعلیم ہی کام کرگیا۔ سو جو نظام بھی بنائیے یہ جان کر بنائیے کہ اسے صرف انسانوں نے چلانا ہے اور بدنیتی کے ساتھ آپ ہر نظام کو فعل کردیں گے۔ بس اتنا ہی کہنا ہے۔ دیکھئے کیا حل ڈھونڈا جاتا ہے۔ خدا ہم پر رحم کرے۔