بلاول بھٹو زرداری کے افطار ڈنر اور اس کے اثرات پر لوگ اپنے اپنے نظریات کے مطابق تبصروں میں مصروف ہیں، لیکن سچ یہی ہے کہ میلہ صرف مریم نواز نے لوٹا اور خوب لوٹا، یہ سیاست میں نواز شریف کی بیٹی کی پہلی باضابطہ انٹری تھی جو پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین کی وساطت سے ہوئی، مریم نواز نے ایک تیر سے کئی شکار کئے، سب سے زیادہ گھائل حمزہ شہباز ہوئے، جن کاخیال تھاکہ وہ میدان سیاست میں مکمل طور پر میچور ہو چکے ہیں، آج پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں تو کل اسی اسمبلی میں وہ اپنے والد کی طرح وزیر اعلی کی حیثیت سے شرکت کیا کریں گے، وزارت اعلی کے چار سالہ تجرببے کی سند ان کے پاس موجود بھی ہے، جاننے والے سبھی جانتے ہیں کہ پچھلی حکومت میں بطور وزیر اعلی شہباز شریف کو کوئی عملی کردار نہیں رہا،تمام اختیارات حمزہ شہباز کے ہاتھوں میں تھے اور پنجاب کی بیورو کریسی اس حقیقت کو تسلیم کرکے ان کے ساتھ کام کر رہی تھی، بس جہاں ضروری ہوتا شہباز شریف سے دستخط کرا لئے جاتے تھے بلکہ اکثر اوقات تو اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی، پنجاب میں ن لیگی ورکروں کا ایک بڑا دھڑابھی حمزہ شہباز کے ساتھ تھا اور ساتھ ہے، لیکن یہ کوئی قربانی دینے والے یا احتجاج کرنے والے لوگوں کا دھڑا نہیں ہے، یہ ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو والے نظریہ کے کاروباری ٹائپ لوگ ہیں، بلاول بھٹو کے افطار ڈنر میں پہلی زیادتی تو یہ ہوئی کہ مریم نواز کو نواز شریف کی متبادل لیڈر کے طور پر مدعو کیا گیا، حمزہ ان کے برابر کے لیڈر کے طور پر نہیں بلوائے گئے، آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ن لیگ کے وفد کے ایک ممبر کے طور پر وہاں گئے، دوسری زیادتی ان کے ساتھ یہ ہوگئی کہ انہیں مریم نواز کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کا اہل تصور نہ کیا گیا، مریم نواز کی اس افطار ڈنر میں اہمیت کا اندازہ آپ صرف ان کی نشست سے لگا سکتے ہیں، ان کے بائیں جانب چیئرمین بلاول بھٹو تھے اور دائیں جانب والی کرسی پر جناب حاصل بزنجو براجمان تھے، زرداری اور بلاول آمنے سامنے بیٹھے، اس سارے وقت میں جو حمزہ شہباز پر گزری ہوگی اسے حمزہ کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا، ان کے چہرے پر بیزاری تھی، لاچاری تھی، ان کا دھیان سیاستدانوں کی اس بیٹھک اور ان کی باتوں کی جانب قطعی نہ تھا، لگ یہ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے مکہ مارکر میز کو توڑ ڈالیں گے،،،،لوگ جنہوں نے نیوز چینلز کی اسکرینوں پر یہ مناظر دیکھے وہ اس صورتحال پر تبصرے تو کرتے رہے مگر بے وزن تبصرے، ذرا سوچئے! یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا جب مریم نواز حمزہ شہباز کی انگلی پکڑے اس بڑے سیاسی اجتماع میں اپنے خیالات کا اظہار کرتی پھر رہی تھیں، کیا کیا نہ ستم ٹوٹا ہوگا حمزہ کے دل پر! جو پچھلے بیس سال سے پنجاب کی عملی سیاست میں سرگرم ہیں، اور پھر وہ منظر بھی جب حمزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کو چیرمین بلاول بھٹو سے ملوایا، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بھٹو کے نواسے اور ان کے والد کو للکارنے والے حمزہ اس وقت بھیگی بلی نہیں تو پھر کیا بنے ہوںگے؟ بے شک زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والا اپوزیشن قائدین کا یہ اکٹھ اپنے مطلوبہ نتائج نہ دے سکا، سراج الحق نے تو آنا ہی نہیں تھا، اسفند یار ولی، محمود اچکزئی اور اختر مینگل بھی وہاں نہ پہنچ پائے، میں یہ قطعی طور پر نہیں سمجھتا کہ اپوزیشن کا یہ اجتماع موجودہ سیاست کا کوئی نیا رخ متعین کر پائے گا،یا اپوزیشن جماعتوں میں دوریاں کم ہو پائیں گی، اس اجتماع کا سارا حاصل حصول یہ تھا کہ مریم نواز میزبان اور تمام مہمان سیاستدانوں کی توجہ کا مرکزتھیں۔ لیکن یہ اس لئے نہیں کہ وہ اپنے باپ اور چچا کی جگہ لے رہی ہیں یا عمران خان کیلئے کوئی بڑا چیلنج بننے والی ہیں یا اس ملک کا سیاسی مستقبل ان سے وابستہ ہو رہا ہے، ان کی پہلی انٹری تھی اور یہی ان میں دوسروں کی دلچسپی کی ایک بات تھی، ورنہ تو اس مجلس میں وہ لوگ بھی موجود تھے جن کا کہنا ہے کہ بیٹی نے باپ کو مروا دیا ہے، سیاسی مباحثے اور افطار و ڈنر کے بعد پریس کانفرنس کا اہتمام تھا، اب لیڈران کی کرسیوں کی ترتیب بدل چکی تھی، بریفنگ بلاول بھٹو نے دی، ان کے دائیں بائیں مولانا فضل الرحمان اور شاہد خاقان عباسی بیٹھے، شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مریم نواز کی کرسی تھی اور مریم نواز نے اپنے ساتھ بیٹھنے کا اعزاز بخشا جناب حمزہ شہباز کو نہیں دیا۔اس اپوزیشن کانفرنس کا کوئی حاصل حصول کوئی مثبت نتیجہ کم از کم ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا، نہ اپوزیشن ایک ہوئی نہ ایک ساتھ سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ ہوا نہ ایک ساتھ موجودہ عوامی ایشوز پر احتجاج کرنے کا، گویا کچھ بھی نہ ہوا، ایسی مہنگائی جو ستر برس میں کبھی پہلے دیکھ گئی نہ سنی گئی، اس کے خلاف یہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے یعنی علیحدہ علیحدہ احتجاج کریں گی، لگتا ہے یہ اپنا اپنا نیو ورلڈ آرڈر کا حصہ ہوگا، مولانا فضل الرحمان نے فرمایا کہ کشتی کو وہ ساحل تک لے جائیں گے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ باقی اپوزیشن لیڈروں کے چپو بھی مہنگائی کے شور میں چوری ہوگئے ہیں، عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان بھی کیا گیا ہے اور اس اے پی سی کے قائد بھی مولانا ہی ہونگے، اور آخر میں مریم نواز کی سن لیں جنہوں نے فرمایا،،،بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں پہنچنی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اہم اپوزیشن بیٹھک کے انجام کے بعد عوام اپنے جینے مرنے کا فیصلہ خود ہی کر لیں تو بہتر ہے، ورنہ عمران خان تو ہے ہی ہے اس کام کے لئے، وہ اکیلا بائیس کروڑ لوگوں کو مارنے میں ناکام رہا تو پھر مریم نواز سے یا اپنے بظاہر بد ترین سیاسی حریف مولانا فضل الرحمان سے مدد مانگ لے گا، سیاسی حریف تو ہوتے ہی مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کے لئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ کئی سال پہلے کی بات ہے کہ جب میں ہفتے میں ایک دو دن انار کلی بازار صرف اس لئے جایا کرتا تھا کہ وہاں سے سستے داموں آپ کی مرضی اور پسند کی کتابیں مل جایا کرتی تھیں، اب پچھلے ایک ماہ سے روزانہ جی چاہتا کہ وہاںجاؤں اور فرشی دکانوں پر ترتیب سے لگی ہوئی کتابیں خرید کر لاؤں، سو اس ہفتے کی رات فیصلہ کر لیا کہ اتوار کی صبح ناشتہ کئے بغیر ہی نکل جاؤں اور کڑی دھوپ کی پروا کئے بغیر کچھ گھنٹے وہاں گزاروں، پہلے فرشی کتابوںکی دکانیں چار، چھ ہوا کرتی تھیں اب تعداد ایک سو کے قریب تھی اور تو اوروہاں گاہک بھی موجود تھے، میں نے پہلے ژ اں پال سارتر اور خلیل جبران کی دو کتابیں خریدیں، پھر اور کتابوں کی تلاش میں تھا کہ ایک جلد شدہ کتاب نظر آئی جس پر کوئی عنوان نہیں لکھا تھا، ایک جگہ ہاتھ سے لکھا گیاتھا،،،، اخبار کے تراشے۔۔۔۔ صفحات کھول کر دیکھے تو وہ اے حمید کی شائع شدہ تحریریں تھیں جنہیں انہوں نے انتہائی نفاست سے اپنے ہاتھوں سے جلدکیا تھا، یہ سن انیس سو نوے کی مکمل تحریریں تھیں، دکاندار نے قیمت پانچ سو روپے لکھ رکھی تھی مگر دو سو میں دیدی۔۔۔۔۔ ہائے۔اے حمید صاحب آپ کے چلے جانے کے بعد آپ کے تمام ادبی اثاثے شاید ردی میں بک گئے ہوں، آپ تو آپ شاید یہاں سبھی لکھاریوں کے ساتھ یہی ہوتا ہو، اور شاید ہمارے نصیب میں بھی ایسا ہی ہو۔۔۔۔۔-