تحریک انصاف کی حکومت نے بجٹ میں مشکل فیصلے کئے ہیں جن سے حالات کی سنگینی کے ساتھ حکومت کے اخلاص کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ماضی میں قوم سے 5ہزار روپے ٹیکس اکٹھا کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ یہی دعویٰ چیلنج بن گیاہے۔ بجٹ کی تیاری میں ملکی معاشی صورتحال کے ساتھ ماضی کے دعوے میں بھی حکومت کے پیش نظر تھے اس لئے حکومت نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے اور ایف بی آر کے لئے اہداف کا پہاڑ بھی کھڑا کر دیا ہے۔ ماہرین معاشیات اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں جب ملک معیشت تنزل کا شکار ہو تو ایف بی آر کے لئے 5555ارب کا سنگ میل عبور کرنا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا۔ ماہرین کی رائے کو اس لئے بھی مسترد کرنا مشکل ہے کہ گزشتہ برس حکومت نے ایف بی آر کے لئے 4398ارب کا نظرثانی شدہ ٹیکس ہدف مقرر کیا تھا مگر 11ماہ میں صرف 3440ارب روپے اکٹھا کر سکی 11ماہ میں ہی 460ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے، یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایف بی آر ہدف کے حصول کے لئے 18لاکھ نان فائلرز کو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں لا چکا ہے ان حالات میں 5555ارب کا ہدف چیئرمین ایف بی آر کے لئے چیلنج ہو گا۔ گو حکومت نے 700ارب کے نئے ٹیکس لگا کر ایف بی آر کیلئے کسی حد تک آسانی پیدا کی ہے لیکن اگر حکومت ٹیکس اہداف حاصل نہ کر سکی تو بڑھتی مہنگائی اور سکڑی برآمدات کے باعث حکومت کے لئے 3151ارب کے خسارے اور ٹیکس وصولیوں میں کمی کو پورا کرنے کے لئے قرضے لینے پڑیں گے جس سے ملکی معیشت پر دبائو بڑھ جائے گا۔ ان حالات میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مستقبل میں معاشی مسائل اور اپوزیشن کا دبائو عمران خان کی حکومت کے لئے سنگین چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت نے سخت معاشی فیصلے کئے ہیں جن سے عوام کی مشکلات میں اضافہ نہ بھی ہو تو کمی کا دعویٰ تو حکومت نہیں کر سکتی۔ بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید اور سیاسی معاملات بالخصوص سابق حکمرانوں کی بدعنوانی کے مقدمات میں ایک ایک کر کے گرفتاریاں بھی اپوزیشن کو حکومت کے خلاف فیصلہ کن جنگ پر اکسائیں گی اور اپوزیشن بجٹ میں نئے ٹیکس ‘مہنگائی کو ایشو بنا کر عوام کو احتجاج پر اکسانے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ بجٹ کے عوام دوست ا عوام دشمن ہونے کا اندازہ غیر جانبدار معاشی ماہرین اور تاجر برادری اور تجارتی تنظیموں کے ردعمل سے بھی ہوتا ہے۔ لاہور چیمبر کے عہدیداران کے مطابق میزانیہ مشکل معاشی حالات کی نشاندہی کرتا ہے لیکن موجودہ حالات میں بجٹ کو متوازن کہا جا سکتا ہے جبکہ راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر نے بجٹ کو یہ کہہ کر قابل قبول قرار دیا ہے کہ اس سے ملکی معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں کی بجٹ پر تنقید کو مخالفت برائے مخالفت سے سے بڑھ کر گرفتاریوں کے خلاف ردعمل کہنا غلط نہ ہو گا۔ اس سے انکار نہیں کہ حکومت نے بجٹ میں لگژری آئٹمز اور برآمدی اشیاء پر ٹیکس بڑھایا ہے جس سے عام پاکستانی کم متاثر ہو گا مگر چینی گھی ایسی فوڈ آئٹمز پر ٹیکس لگا کر حکومت نے اپوزیشن کو موقع بھی فراہم کر دیا ہے حالانکہ حکومت نے راشن کارڈ ،مزدور کی اجرت 17500روپے مقررکرنے سمیت معذوروں کے لئے امداد کو بڑھا کر 2ہزارروپے کرنے ایسے عوام دوست اقدام بھی کیے ہیں ان حالات میں تحریک انصاف کے پہلے بجٹ کو متوازن کہنا غلط نہ ہو گا مگر اس بجٹ کے ثمرات اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں اگر حکومت بجٹ اہداف کے حصول میں کامیاب ہوتی ہے۔