قبلہ آصف علی زرداری ایک بار پھر سب پر بھاری نکلے، ذرا سی جنبش کی اور دام نو سے بچ نکلے، بھلے عارضی طور سے لیکن فی الحال تو بچ نکلے۔ اب وہ ہیں اور خان صاحب کی تصویر پر نگاہیں اور لب پر یہ گنگناہٹ کہ ع جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے خدا جانے کیا معاملات طے ہوئے ہیں لیکن کچھ تو طے ہوا ہوگا۔ سنجرانی ماڈل کا اضافی حاشیہ ہی سہی۔ زرداری صاحب کچھ عرصہ تو ضرور ہی اچھے بچے بن کر رہیں گے۔ بعد کی بعد میں دیکھ لیں گے، اوپر والے بھی اور زرداری صاحب بھی۔ خان صاحب ملول ہیں اور ان کی حالی موالی بھی، حالانکہ انہیں راضی برضا ہونا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ اوپر والوں کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ وہ جوکرتے ہیں، خان صاحب کے بھلے کے لیے ہی کرتے ہیں۔ اب دیکھئے، اپوزیشن کے جس ڈھیلے ڈھالے اتحاد کا تھوڑا بہت خطرہ تھا، وہ بھی ٹل گیا۔ یہ اتحاد بن جاتا تو خان صاحب کی مزے مزے کی زندگی میں کچھ نہ کچھ خلل تو آنا ہی تھا۔ ٭٭٭٭٭ پیپلزپارٹی کہتی ہے، آصف زرداری کے خلاف بنائی گئی جے آئی ٹی جھوٹی ہے۔ خیر، یہ دعویٰ تو اب پرانا ہو گیا۔ خواتین کے ہاں تو نیا محاورہ بن گیا ہے۔ سکھی کی بات پر اعتبار نہ آئے تو پہلے کہتی تھیں، چل جھوٹی۔ اب کہتی ہیں چل جے آئی ٹی۔ پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ جے آئی ٹی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، محض مفروضے ہیں۔ ارے یہی مفروضے تو اب استغاثے کی شاہ کلید ہیں۔ وہ دور گیا جب ثبوت و شبہات کی ضرورت تھی۔ اب سارا کام ’’لگتا ہے‘‘ کی بنیاد پر چلتا ہے یعنی چونکہ چنانچہ کا اصول لاگو ہے۔ نوازشریف کے کیس دیکھ لیجئے، بات سمجھ میں آ جائے گی۔ لگتا ہے تمہارے اثاثے تمہاری آمدن سے زیادہ ہیں، لگتا ہے مل کے مالک تمہی ہو۔ اثاثے کتنے کے ہیں، آمدنی کتنی ہے، یہ جاننے کے کھیکھڑ میں کون پڑے۔ ٭٭٭٭٭ ایک راز دان کا کہنا ہے کہ زرداری کے بچ نکلنے سے زیادہ خان صاحب کو بلاول کے نہ پکڑے جانے کا صدمہ ہے۔ پوچھا، ایسا کیوں، بلاول نے کیا ظلم ڈھا دیا۔ فرمایا، ایک بار بھرے جلسے میں بلاول نے خان صاحب کو بار بار انکل کہہ دیا تھا۔ بس خان صاحب کی سدا بہار نوجوانی نے اسے دل پر لے لیا۔ ٭٭٭٭٭ یہ رازداں تو خان صاحب کے حلقہ ارادت سے تعلق رکھتا تھا، پیپلزپارٹی کے حلقے کے ایک رازداں سے بھی ملاقات ہوگئی۔ کسی کتاب کے بارے میں معلوم کرنے آئے تھے، ساتھ ان کے ایک اور صاحب بھی تھے جسے ملائے اعلیٰ کے قریبی حلقوں تک رسائی ہے۔ فرمایا کہ بہت جلد مڈٹرم الیکشن ہوں گے، پیپلزپارٹی جیتے گی اور بلاول وزیراعظم بنیں گے، زرداری صاحب بدستور سر کی چھائوں رہیں گے۔ بلاول کیسے یعنی کس طرح کے وزیراعظم ہوں گے۔ وزیراعظم الیکٹ یا وزیراعظم سلیکٹ۔ جواب دیا، آپ سمجھدار ہو، خود ہی سمجھ لو۔ ٭٭٭٭٭ چودھری نثار پھر غزل سرا ہوئے ہیں۔ دو شعر ملاحظہ ہوں: ارشاد کیا، مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک نہیں بنا رہا۔ یہ اطلاع پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے مہینہ بھر پہلے دی تھی۔ چودھری صاحب نے تردید مہینے بعد کی ہے۔ اس دوران کیا ہوتا رہا؟ بھاری پتھر اٹھائے سے نہ اٹھایا گیا یا کچھ اور؟ ویسے سنا ہے، چودھری صاحب سے کہا گیا تھا فارورڈ بلاک کے سربراہ بن جائو، چودھری صاحب نے کہا، فارورڈ بلاک آپ بنا کر مجھے دے دو، میں سربراہ بن جائوں گا۔ مزید ارشاد کیا، عمران خان کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مطلب یہ نکلا کہ کچھ لوگ خان صاحب کو کام کرنے نہیں دے رہے۔ کون ہیں جو کام کرنے نہیں دے رہے؟ کوئی اپوزیشن نہیں ہے، کوئی دھرنا نہیں ہے، اسمبلیوں سے واک آئوٹ بھی نہیں ہورہا، کہیں جلسے جلوس بھی نہیں ہورہے، کوئی ’’لیک‘‘ کا ایشو بھی نہیں ہے۔ گلیاں خالی، سڑکیں صاف ہیں، پروٹوکول کی گاڑی کے آگے کوئی سپیڈ بریکر بھی نہیں ہے۔ کوئی انگلی بھی نہیں ہلا رہا، امپائر سمیت جملہ ادارے خان صاحب کے بقول، ان کی پشت پر ہیں، پھر بھی کام کرنے کا موقع نہ دینے کا شکوہ ہے۔ وہ خاتون یاد آرہی ہیں جو کسی کوئز پروگرام میں تشریف لے گئی تھیں۔ ان سے کوئز والے نے سوال پوچھا، محترمہ واسکوڈی گاما نے تین سفر کئے۔ ایک سفر کے دوران اس کی موت ہو گئی۔ بتائیے وہ کون سا سفر تھا، پہلا، دوسرا یا تیسرا۔ محترمہ نے کہا، آپ نے تین آپشن دے دیں، تھوڑی آسانی کیجئے، دو آپشن دیں تو جواب دینے کی کوشش کروں۔ سوال کرنے والے نے کہا، محترمہ دو کیا، میں نے تو ایک ہی آپشن دی ہے، غور کی زحمت کریں۔ محترمہ نے کہا جناب، کوئی آسان سوال کریں۔ خان صاحب کو بھی شاید مزید ’’آسان‘‘ موقع کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭ نئے صوبوں کی بحث ٹھنڈی پڑ چکی، پھر بھی کسی پروگرام میں اس کی بازگشت سنائی دے ہی جاتی ہے۔ ایک پروگرام کسی اور بابت تھا لیکن دانشور صاحب نے ضمنی طور پر فرمایا، ہمیں بھی بھارت کی طرح انتظامی بنیادوں پر چھوٹے چھوٹے صوبے بنانے چاہئیں۔ چھوٹے چھوٹے صوبے بھارت میں نہیں ہوتے، ہاں افغانستان میں ہیں۔ تین کروڑ آبادی کے لیے لگ بھگ پچاس صوبے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کوئی ساڑھے تین سو چھوٹے چھوٹے صوبے بن سکتے ہیں۔ پچاس تو لاہور ہی میں بن جائیں گے۔ چوبرجی کا صوبہ الگ، لاری اڈے کا الگ، گلبرگ کا الگ اور بھاٹی کا الگ۔ بھارت میں ایک بھی صوبہ انتظامی بنیادوں پر نہیں بنا۔ نسلی یا جغرافیائی بنیادوں پر بنے۔ مراٹھے الگ، گجراتی الگ، تلنگے الگ، بنگالی اور ہریانولی الگ۔ ملک ہوں یا صوبے سب کی بنیاد جغرافیائی ہوتی ہے یا نسلی اور لسانی۔ انتظامی بنیاد کا ابہام ہمارے ہاں ہی جانے کہاں سے ہوا۔ انتظامی طور سے ضلع اور ڈویژن بنتے ہیں۔ صوبے نہیں۔ افغانوں نے قبائلی بنیاد بھی صوبہ بنانے میں شامل کردی۔