تجزیہ : سیدانورمحمود ڈھاکہ سٹیڈیم تقریباً مکمل طور پر بھرا ہوا تھا، پاکستان ایم سی سی کے خلاف کھیل رہا تھا، جہاں تک مجھے یاد ہے اس وقت کے مشرقی پاکستان کا ایک کھلاڑی راقب پہلی مرتبہ ٹیم میں بطور بارہواں کھلاڑی شامل تھا۔ دونوں ٹیموں نے جب دوپہر 12 بجے لنچ کیلئے میدان چھوڑا تو میں بھی جلدی سے باہر نکلا کہ کچھ کھا پی لوں اور واپس آکر سیٹ پر بیٹھ جاؤں، ایک دکان کے قریب گیا تو پرجوش لوگوں کا ایک اژدہام موجود تھا۔ میں نے ایک شخص سے پوچھا کیا ہوا تو اس نے جواب دیا کہ ریڈیو پر ابھی اعلان ہوا ہے نئی منتخب اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کو ملتوی کردیا گیا ۔ اسمبلی کا سیشن 3 مارچ کو ڈھاکہ میں ہونا تھا، قومی اسمبلی کے اجلاس کی میزبانی کیلئے ڈھاکہ کو دوسرا نیا دارالحکومت بنا دیا گیا تھا اور عمارتیں کھڑی کردی گئی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں صورتحال خراب ہوتی گئی اور میچ کو ملتوی کردیا گیا، سارا ہجوم قریبی ’’ ہوٹل پوربانی ‘‘ کی طرف مڑ گیا جہاں شیخ مجیب الرحمن کی زیر صدارت عوامی لیگ کا اجلاس جاری تھا۔ عوامی لیگ کے طلبہ ونگ ’’ایسٹ پاکستان سٹوڈنٹ لیگ‘‘ کے سربراہ طفیل ہجوم کو ہٹاتے تیزی سے ہوٹل میں داخل ہوئے اور شیخ مجیب الرحمان کو باہر لائے ، آزادی کی زبردست نعرہ بازی کے دوران شیخ مجیب ہوٹل کے پورچ میں موجود تھے ۔ وہاں کھڑے مجیب واضح طور پر مشتعل ہوئے تاہم صرف ہجوم کیلئے ہاتھ ہلاتے رہے اور واپس چلے گئے ۔ آئندہ جو ہوا وہ تباہی تھا، خونی فسادات اور قتل و غارت گری ۔ پاکستان آرمی کے پاس صوبے میں تباہی کو روکنے کیلئے مطلوبہ اہلکار نہیں تھے ۔ میں نے ہمیشہ موقف اختیار کیا کہ مجیب پاکستان سے مکمل علیحدگی اور آزاد ملک چاہتے تھے ، یکم مارچ کے دن ایسا کرنے کا لمحہ آچکا تھا۔ مجیب کو بس یہ کرنا تھا کہ وہ آزادی کا اعلان کرے اور پاکستان آرمی کے پاس اتنے اہلکار نہیں تھے کہ وہ بغاوت کو کچل سکے ۔ بھارت کو فوری طور پر نئی ریات کو تسلیم کرنا اور اس نئے ملک کی مدد کیلئے اپنے فوجی بھیجنا تھے ۔ یکم مارچ سے 26 مارچ تک تباہی جاری رہی ، مرد، خواتین، حتی کے بچوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ بھارت نے اپنی فضائی حدود کو بند کردیا اور ایک ملک کے دو حصوں کے درمیان پروازوں کو براستہ سری لنکا طویل راستے کا انتخاب کرنا پڑا۔ پاکستان نے اپنے ردعمل کو مضبوط کرنے کیلئے فوجیوں کو مشرقی پاکستان میں بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا تاہم وہ دل و دماغ کی جنگ پہلے ہی ہار چکا تھا۔ 6 سال قبل 6 ستمبر 1965 کو ڈھاکہ کے تمام تعلیمی اداروں کے ہزاروں طلبہ میں بھی شامل تھا جو پاکستان پر حملے پر انڈیا کی موت کے نعرے لگا رہے تھے ۔ اب چھ سال بعد میں انہیں ہزاروں افراد کے درمیان خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، خوش قسمتی سے ہم نے ایک ہفتے میں ہی اپنی فیملی کو کراچی منتقل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ میرے کیڈٹ کالج کے دنوں کے دو بنگالی دوستوں نے ہمیں چٹاگانگ ریلوے سٹیشن تک پہنچایا اور ڈھاکہ کی طرف ہماری ٹرین کو ہاتھ ہلاتے خدا حافظ کیا۔ ان ہزاروں افراد میں سے اکثر کے ساتھ کیا ہوا یہ معلوم ہے تاہم اس کو دستاویزی طور پر محفوظ نہیں کیا گیا، یہ 26 اور 27 مارچ کی درمیانی شب تھی جب پاکستانی فوج نے اپنا کریک ڈاؤن شروع کردیا، اس کے بعد 16 دسمبر 1971 کے سرنڈر تک جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم اور دستاویز کا بھی حصہ ہے ۔ قابل افسوس یہ بات ہے کہ یکم تا 26 مارچ اور 27 مارچ تا 16 دسمبر کے عرصہ کے درمیان کے واقعات غلط طور پر رپورٹ کئے گئے ہیں۔ لیکن 16 دسمبر ایک دن ہے جسے وقوع پذیر ہونے کی ضرورت نہیں تھی، اس دن جو ہوا وہ اس دن کا واقعہ نہیں بلکہ اصل واقعہ یکم مارچ کو ہوچکا تھا۔ لیکن منتخب قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے التوا کے بعد بھی دونوں حصوں کو ایک نئی تعریف کے ساتھ ایک ہی ملک کے طور پر جاری رہنا چاہیے تھا۔ کیا ہم نے 40 سال بعد 2011 میں آئین کی 18 ویں ترمیم کی صورت میں ایسا ہی نہیں کیا، اس ترمیم کے ذریعہ سے ملک کو لگ بھگ ایک فیڈریشن کی شکل دے دی گئی ہے ۔ اگر ایسا ہوجاتا تو ہزاروں جانوں کو بچایا جا سکتا تھا، بنگلہ دیش کے لاکھوں مسلمانوں کو زور آور بھارت کے ساتھ نہ رہنا پڑ رہا ہوتا، اب یہ بنگالی بھارت کے زیر اثر رہ رہے ہیں، بنگلہ دیشی اس صورتحال سے نفرت نہیں تو ناراضی کا اظہار تو کرتے ہیں تاہم ان کے پاس اب امکانات بہت کم ہیں۔ ملک کو دو لخت کرنے ، خون بہانے اور اس کے قبل اور بعد کے واقعات کے ذمہ دار اب زندہ نہیں، خواہش یہ ہے کہ تاریخ اس سانحے کو درست طور پر ریکارڈ کرے اور الزامات کو الگ الگ جائزہ لیا جائے ۔ ہمارے سامنے ایک اور 3 مارچ اور 26 مارچ ہے ۔ کیا ہمارے سیاستدان اور تمام اہم عناصر ایک مرتبہ پھر غور کریں گے اور ملک کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے درپیش ابتر صورتحال سے ایک قدم پیچھے ہٹیں گے اور اس قوم کو کچھ سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کریں گے ؟ یا پھر ہمیں ایک اور بحران کا سامنا کرنا ہے کہ ایک مشکل اتحاد کے سامنے سمجھوتہ کرنے سے گریزاں اور مایوس وزیر اعظم ایسی قومی اسمبلی کو تحلیل کردیتا اور اپنی اقلیتی حکومت کو آگے بڑھانے سے الگ ہوجاتا ہے یا پھر جمہوریت کے نام پر خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ اگلا ہفتہ اور آنے والے دن واضح کردیں گے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے ۔ تجزیہ