1974ء میں یوگو سلاویہ کی ایک پرفارمنگ آرٹسٹ مارینہ ایبرا مووک نے سماج میں کرپشن کے حوالے سے رجحانات اور مواقع کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لئے ایک منفرد تجربہ کیا۔ مارینہ ایک بڑے سے کمرے میں کھڑی ہو گئی۔ اس کے سامنے میز پر چٹکی‘ چھڑی‘ چاقو‘ بلیڈ‘ لپ اسٹک‘ قینچی ‘بندوق‘ سپرے گن‘ رنگ اور برش سمیت 72چیزیں رکھ دی گئیں۔ ساتھ ایک بورڈ پر اس نے ہدایات لکھ دیں کہ اس میز پر وہ بہتر چیزیں موجود ہیں جو آپ مجھ پر استعمال کر سکتے ہیں۔ مجھے جیتی جاگتی عورت نہیں فقط ایک شے خیال کریں۔ چھ گھنٹوں کے وقفے میں آپ جو چاہیں میرے جسم کے ساتھ کریں۔ میں آپ کی حرکتوں کی خود ذمہ داری لیتی ہوں۔ بورڈ پر چھ گھنٹے کا ٹائم شب 8بجے سے رات 2بجے تک کا تحریر تھا۔ اگلے چھ گھنٹوں میں مارینہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بہت بھیانک تھا۔ کسی نے اسے گھما دیا۔ دوسرے نے اس کی بازو کو دانتوں سے کاٹ لیا‘ کسی نے اس کے بدن کو نامناسب انداز سے چھوا۔ تیسرے گھنٹے میں اس کے سارے کپڑے بلیڈ کے ذریعے کاٹ دیے گئے۔ چوتھے گھنٹے میں یہی بلیڈ ستم پسندوں نے اس کی جلد پر چلا دیے۔ اس کے بدن پر متعدد معمولی نوعیت کے جنسی حملے ہوئے۔ مارینہ اس تجربے کو انجام دینے میں اس قدر پختہ عزم تھی کہ اس نے طے کر رکھا تھا کہ اگر کوئی اس کی آبروریزی یا اس کا قتل بھی کر دے تو وہ کچھ نہیں کہے گی۔ تجربے کے آخری دو گھنٹے بہت ہی اذیت ناک تھے۔ مارینہ نے بعد میں لکھا کہ:میں نے اپنے ساتھ جنسی زیادتی ہوتے محسوس کی‘ میرا لباس کاٹ دیا گیا‘ گلاب کے کانٹے میرے پیٹ میں پیوست کئے گئے‘ میرے سر کو بندوق کے نشانے پر لیا گیا۔چند گھنٹے کا وقت ختم ہوا تو مارینہ نے اپنے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور 72چیزوں کو استعمال کرنے والے افراد کے درمیان چہل قدمی شروع کر دی۔ لوگ اس کے چہرے کو دیکھنے سے گریز کر رہے تھے۔ مارینہ نے مشاہدہ کیا کہ یہ لوگ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ انہوں نے چھ گھنٹوں کے دوران مارینہ کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر ان سے کسی طرح کی باز پرس کی جائے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسے اذیت پہنچانے کے عمل کو بھول جانا چاہتے تھے۔ یہ ایک تجربہ تھا جس سے انسانی فطرت کے حوالے سے خوفناک حقائق سامنے آئے۔ اس سے پتہ چلا کہ جب کسی فرد کو موافق صورت حال میسر آئے تو وہ کس قدر تیزی کے ساتھ آپ کو تکلیف پہنچا سکتا ہے کیونکہ اسے سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ اس تجربے سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر نارمل دکھائی دینے والے افراد کو بھی موقع دیا جائے تو وہ متشدد ہو سکتے ہیں۔ اس تجربے سے معلوم ہوا کہ برائی انسان کی موروثی فطرت میں شامل ہے۔ اس تجربے کا ایک نتیجہ یہ نکالا گیا کہ اگر لوگ درست رویے کا مظاہرہ کریں تو اس کی وجوہات میں شامل ہو گا کہ انہیں سماج کی طرف سے برا بھلا کہے جانے کا خوف ہے‘ اس طرح قانونی سزا کا ڈر انہیں اپنا طرز عمل مہذب رکھنے پر مجبور کرتا ہے‘ جب یہ دونوں طرح کے خوف موجود نہ ہوں تو لوگ بہت بھیانک کام کرنے سے گریز نہیں کرتے۔نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب سماج کسی کرپٹ کو برا نہیں کہتا بلکہ اس کی جانب سے جائز ناجائز طریقے سے پرتعیش زندگی کے سامان جمع کر لینے کا علم ہوا تو تو سماج اسے وی آئی پی کی طرح اہمیت دینے لگتا ہے۔ اس طرح لوگ معاشرے میں عزت دار مقام حاصل کرنے کے لئے بدعنوان ہو جاتے ہیں‘ اپنی کوششوں کا محور طاقت اور دولت حاصل کرنے کو بنا لیتے ہیں۔ بعد کے تجزیوں میں ثابت ہوا کہ ایسے بدعنوان لوگ جب ایک بار کافی دولت اور اختیار حاصل کر لیتے ہیں تو پھر انصاف فراہم کرنے والا نظام ان کا یرغمال ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ قانونی جوابدہی سے بچنے کے سو طریقے ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ بدعنوانی اور قانون شکنی کا انسداد صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کی سخت سزا ہو‘ سماجی سطح پر اسے برا خیال کیا جائے اور سماج سختی سے قانون کا احترام کرے۔ اگر سزا اور جوابدہی کے ڈر ختم کر دیے جائیں تو لوگ اپنی اصل فطرت کے مطابق رویہ اختیار کریں گے۔ ایمانداری کی جگہ بددیانتی پروان چڑھے گی اور سماج سے خیر اٹھ جائے گا۔ہو سکتا ہے کچھ افراد اس بات سے اختلاف کریں کہ انسان کی فطرت میں برائی ہے۔ ایک غیر متعصب نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ انسانی رویہ دو طرح سے ظاہر ہو سکتا ہے‘ پہلا یہ کہ وہ وحشی ترین درندے سے بھی بڑھ کر وحشی ہو جائے اور دوسرا یہ کہ اس میں خیر کی صفت اس قدر ممتازہو جائے کہ اس کی صفات کو خدائی صفات کا پرتو سمجھا جانے لگے۔ ان دو انتہائوں میں فرق صرف محبت کا ہے‘ اگر کسی شخص کے دل میں محبت ہے تو وہ مخصوص حالات میں فرشتہ صفت طرز عمل ظاہر کرتا ہے وہ دوسروں کے آرام‘ سہولت اور عزت کا خیال کرتا ہے۔ وہ زن‘ زر اور زمین کے فساد میں مبتلا نہیں ہوتااور اگر اس کے دل میں محبت نہیں تو وہ شیطان بن سکتا ہے۔آج کی دنیا میں جس جذبے پر محبت کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے یہ محبت نہیں بلکہ صنعتی اور بنکنگ اقدار سے تعمیر معاشرے کی خود غرضانہ سوچ ہے۔ جو ممالک خود کو مہذب کہتے ہیں وہاں شیطان ان دنوں آزاد ہو گیا ہے۔ لوٹ مار ہو رہی ہے‘ معمر افراد سے ٹائلٹ پیپر چھین کر نوجوان ناچ رہے ہیں۔ خوراک کے ذخائر دکانوں سے ختم ہونے کے بعد لوگ اسلحہ خریدنے لگے ہیں۔ تاکہ حالات زیادہ خراب ہوں تو خوراک لوٹ سکیں۔ کرونا کی افراتفری کو چھ گھنٹے کا تجربہ سمجھیں۔ ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی‘ جراثیم پھیلانے کی دانستہ کوشش‘سیاسی اور نسلی تعصب کی بنیاد پر اچھے کاموں پر تنقید اور مایوسی کی باتیں برائی ہیں۔ جن کے دل میں محبت ہے وہ خود کو خطرے میں ڈال کر متاثرین کی مدد کررہے ہیں۔ دھیان رکھیے پاکستان میں کچھ ایسے گروہ سرگرم ہو چکے ہیں جن کے دل میں محبت نہیں‘ ہم ایک آزمائشی وقت کے حصار میں ہیں‘تجرباتی وقت ختم ہو گا ‘ایسا نہ ہو کہ ہم بعد میں خود سے نظریں نہ ملا سکیں۔