یہ بات درست ہے کہ ابھی تک تحریک انصاف کی حکومت عوام کو کوئی ایسا معاشی ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوئی جس کے وعدے اس نے الیکشن سے پہلے کیے تھے لیکن کامیابی یہ ہے کہ اس نے بعض سخت فیصلے لیکر ملک کو بڑے معاشی بگاڑ سے بچا لیا۔ موجودہ حکومت نے اپنے دس ماہ کی مدت میں تین بڑے معاشی اقدامات کیے۔ ملک کو نادہندگی سے بچایا ‘ روپے کی قدر گرائی اور حکومت کے ترقیاتی اخراجات کم کرکے مالیاتی نظم و ضبط قائم کیا۔ ان فیصلوں کے نتیجہ میں ملکی معیشت کو استحکام تو ملا لیکن مہنگائی زیادہ ہوگئی اور معاشی ترقی کی رفتار پہلے کی نسبت سست ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان یوں تو پاپولرسیاست کرتے ہیں لیکن معیشت کے معاملات میں انہوں نے وقتی مقبولیت کی بجائے ایسے نامقبول معاشی اقدامات کو ترجیح دی جن کے مثبت اثرات ظاہر ہونے میںکچھ وقت لگے گا۔ عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا اُس وقت پاکستان کے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے اتنے بڑھ چکے تھے کہ خطرہ تھا کہ ملک غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی نہیں کرسکے گا اور نادہندہ ہوجائے گا۔ نادہندگی سے ملکی معیشت کو بھیانک نقصانات ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسے ملک کی ایک دھیلے کی ساکھ نہیں رہتی۔ وزیراعظم عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچالیا۔ الیکشن سے پہلے عمران خان غیرملکی قرضے لینے کے سخت مخالف تھے لیکن ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کیلیے انہوں نے اپنا پرانا موقف ترک کرکے دوست ممالک کے ہنگامی دورے کیے اور اُن سے قرضے لیکر زرمبادلہ کا بندوبست کیا۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) سے بھی قرض لینے کے لیے طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ کرلیا گیا۔ حکومت نے تجارتی خسارہ کم کرنے کیلیے بعض درآمدی اشیا پر کسٹم ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا جس سے 60 ارب ڈالر کی درآمدات کے سالانہ حجم میں تقریبا چار ارب ڈالر کمی واقع ہوئی۔ ظاہر ہے جب درآمدات کم ہوتی ہیں تو تاجروں اور دکانداروںکی فروخت اور آمدن میں بھی کمی آتی ہے۔ اسی لیے کاروباری طبقے میں بے چینی ہے۔ لیکن زرمبادلہ کی قلت پر قابو پانے کیلیے ایسا کرنا ناگزیر ہوچکا تھا۔حکومت کے جس اقدام پر سب سے زیادہ تنقید ہوئی اور معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے وہ تھا روپے کی قدر میں کمی۔ جس ملک کی معیشت کے بنیادی اشاریے جیسے تجارت کا توازن اور افراط زر وغیرہ منفی ہوں اسکی کرنسی کی قدر گرتی رہتی ہے۔ یہی مسئلہ پاکستان کا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے اپنی حکومت کے پہلے چار سال میں ملک کے قیمتی زرمبادلہ سے تقریبا 22 ارب ڈالر مارکیٹ میں بیچ کر مصنوعی طریقہ سے روپے کو اصل قدر سے اُوپر رکھا ہوا تھا۔ روپے کو مصنوعی طور پر بلند رکھنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ درآمدات بڑھ جاتی ہیں اور تجارتی خسارہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ جب بیرون ملک سے سستی اشیا درآمد ہورہی ہوں تو ملک کے صنعتکار اشیا ء بنانا چھوڑ دیتے ہیں۔ روپے کی مصنوعی قدر سے درحقیقت ہم دوسرے ملکوں کی اشیاء کو سب سڈی دے رہے ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے روپے کو اسکی حقیقی قیمت پر لاکر ایسا فیصلہ کیا جو وقتی طور پر تو مہنگائی کا باعث بنا لیکن یہ ملک کے طویل مدتی معاشی مفاد میں ہے۔ ملک میں اکثریتی آبادی تو کم آمدن والوں کی ہے۔ وہ تو درآمدی اشیا استعمال نہیں کرتے لیکن متوسط طبقہ اس سے خاصا متاثر ہوا۔ اسکے استعمال کی بہت سی چیزیں جیسے ا سمارٹ فونز اور الیکٹرانک سامان وغیرہ مہنگی ہوگئیں۔ بات ایک سخت فیصلہ تک محدود رہتی تو شائد موجودہ حکومت کو اتنی تنقید برداشت نہ کرنی پڑتی لیکن وفاقی حکومت نے اپنا ترقیاتی بجٹ بھی تقریبا 350 ارب روپے کم کردیا۔ مقصد بجٹ کے خسارہ کوکنٹرول کرنا تھا لیکن اسکے نتیجہ میں معاشی ترقی کا عمل سست پڑ گیا۔ بجٹ میں آمدن اور اخراجات میں توازن یا مالیاتی استحکام ہمارے ملک کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ ہم اپنی آمدن سے بہت زیادہ خرچ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ آصف زرداری اور نواز شریف نے ملک کی موٹر ویز‘ ائیرپورٹس اور اسلام آباد کی اہم سرکاری عمارات تک گروی رکھ کر بیرون ملک سے قرضے حاصل کیے جن کا طوق آج بھی ہمارے گردنوں میں پڑا ہوا ہے۔ عمران خان بھی آسان راستہ اختیار کرتے تو ملک کی نیشنل ہائی وے‘ ریل ٹریک اور دیگر سرکاری عمارتیں گروی رکھ کر مزید قرضے حاصل کرلیتے اور اخراجات مزید بڑھا دیتے لیکن انہوں نے مشکل راستہ چُنا۔ اب زرمبادلہ کی قلت پر قابو پالیا گیا ہے ‘روپیہ اپنی حقیقی قدر پر مستحکم ہوگیا ہے‘ بجٹ خسارہ قدرے کنٹرول میں ہے گو پوری طرح نہیں۔ اگر روپیہ کی قدر اورحکومتی اخراجات میں کمی کے یہ فیصلے بر وقت نہ کیے جاتے تو معاشی مشکلات مزید پیچیدہ ہوجاتیں اور عوام الناس کو زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑتا۔ عام آدمی کے لئے معیشت کی باریکیاں سمجھانا مشکل کام ہے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ کوئی مسیحا آئے اور فوری طور پر مہنگائی‘ بیروزگاری ختم کردے۔ حقیقی دنیا میں یہ ممکن نہیں۔کسی بھی حکومت کو معاشی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کیلیے دو سے تین برس درکار ہوتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلا مشکل سال تو ثابت قدمی سے گزار لیا۔ چند دنوں بعد پیش کیا جانے والا بجٹ بتائے گا کہ اگلے مالی سال میں انکی حکومت معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے مزید مشکل فیصلے کرپاتی ہے یا عوامی دبائو کے باعث انہیں ٹالنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہماری معیشت کے کئی دیرینہ مسائل ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خوشحال طبقات کو ٹیکس نہ دینے کی عادت پڑ چکی ہے۔ ملک کا پچاسی فیصد ٹیکس صرف 360 کمپنیاں دیتی ہیں۔ ماضی میں حکومتوں نے تاجروں‘ بڑے زمینداروں اور پیشہ ور ماہرین کے منفی ردعمل سے ڈر کر ٹیکس بنیاد وسیع کرنے کی بجائے قرضوں کے ذریعے کاروبار مملکت چلایا۔ سننے میں آرہا ہے کہ ٹیکس گزاروں کی بنیاد وسیع کرنے کیلئے آئندہ بجٹ میں کئی اقدامات کیے جائیں گے۔ ظاہر ہے جو لوگ ان اقدامات کی زد میں آئیں گے وہ مزاحمت کریں گے۔ حزب اختلاف اس پر سیاست چمکائے گی۔ اگر حکومت اس دبائو کو برداشت کرلے تو یہ بڑا کارنامہ ہوگا کیونکہ ملکی معیشت ہمیشہ کیلئے قرضوں پر نہیں چلائی جاسکتی۔ بیمار کو جتنا بھی بُرا لگے اسے کڑوی دوا کھانی پڑتی ہے۔