حکومت کے بازوئے پکڑ دھکڑ نے سندھ اسمبلی کے سپیکر کو پکڑ لیا ۔ وہ کسی کام سے اسلام آباد آئے تھے جہاں پکڑ دھکڑحکام گھات میں بیٹھے تھے الزام وہی اثاثوں اور آمدنی والا۔ یہ الزام بھی کیا خوب ہی ہے ہر گلے کی چابی جسے چاہو پکڑ لو۔ لگتا ہے اپوزیشن کے سارے ارکان اسمبلی اسی کی مدد سے پکڑے جائیں گے۔ کیا پتہ کل کلاں صحت مند افراد کی شکایت بھی آ جائے تمہاری صحت تمہار عمر کے حساب سے بہت اچھی لگتی ہے۔ لگتا ہے ناجائز کماتے ہو۔ نکالو منی ٹریل۔گرفتاری پر پیپلز پارٹی مشتعل ہوئی۔ بلاول بھٹو نے کہا۔ وزیر اعظم آمر بننا چاہتے ہیں۔ یہ سخت زیادتی ہے۔ جس کے اتنے زیادہ نام ہوں‘ اسے بے نامی کہنا ٹھیک نہیں۔ بلاول کبھی عوام میں نکلیں۔ پھر دیکھیں ان کے کتنے نام ہیں۔ پیپلز پارٹی کی تنقید کا فوری جواب نیب نے یہ کہہ کر دیا کہ ہم کسی سیاسی جماعت کے آلہ کار نہیں۔ کمال ہے کسی جماعت کو سیاسی جماعت ہی نہیں سمجھتی۔ چیئرمین نیب کی تقرری پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کو ٹریپ کر کے کرائی تھی۔ اس ٹریپ کی کہانی اخبارات میں آ چکی ہے۔ پیپلز پارٹی جانتی تھی کہ چیئرمین نیب صاحب مسلم لیگ ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ بہت مزا آئے گا۔ یہ میں جانتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ بھی کیا کریں گے۔ اب مزا آیا؟ خیر سے چادر اور چار دیواری بھی نیب کی’’ڈومین‘‘ میں آ گئی۔ نیب کی چھاپہ مار ٹیم نے سات گھنٹے گھر میں گھس رہی۔ ٭٭٭٭٭ ہفتہ بھر پہلے کی بات ہو گی ایک ٹی وی پر خبر چلی اگلے دن اخبار میں بھی آئی کہ سپیکر قومی اسمبلی سے ناراض ہے۔ وجہ یہ کہ سپیکر اپوزیشن لیڈروں‘ شہباز شریف ‘ خورشید شاہ اور دیگر سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہ بات انہیں پسند نہیں آئی۔ خبر کا تاثر یہ تھا کہ اب سپیکر کی خیر نہیں۔ اتفاق سے ایک محفل میں اس پر بات ہو رہی تھی۔ ایک صاحب نے کہا پتہ نہیں‘ خبر سچ ہے یا جھوٹ دوسرے نے کہا‘ دو تین دن میں پتہ چل جائے گا۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اطلاعات نے ٹی وی ملازموں کو لے کر اپنی قوت کا مظاہرہ کیا اور ایم ڈی ٹی وی کے خلاف نعرے لگوا دیے۔ ایم ڈی ٹی وی کے سر پر وزیر اعظم کے مشیر کا دست شفقت ہے اس لئے وہ بے فکر ہیں۔ وزیر اطلاعات نے بہرحال دل کی بھڑاس نکالی اور فرمایا‘ وزیر اعظم ہائوس میں غیر منتخب لوگ معاملات خراب کر رہے ہیں۔ غیر منتخب وزیر اطلاعات کا اشارہ کس کی طرف تھا خیر جلد ہی واضح ہو گیا کہ وزیر اطلاعات کا ہدف اسم معرفہ نہیں۔ یکے از اسم ہائے نکرہ کی طرف سے ٹویٹ کر کے انہوں نے اشارہ واضح کر دیا۔ لکھا بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔ لیکن یہاں پھر ایک الجھن ہے۔ دونوں صاحب حکومت کے مصاحب ہیں پھر اعتراض کیوں! ہو سکتا ہے وزیر اطلاعات جواب دیں کہ صاحب ‘ مصاحب تو ہم بھی ہیں لیکن آبرو والے ہیں۔ اتنے سارے مصاحب ہوں تو درجہ بندی کیسے ہو۔ یعنی کیسے پتہ چلے کہ کون سا مصاحب کس پائے کا ہے۔ ایک شعر یاد آیا ؎ کون ہے شہ کا مصاحب دیکھنا اور پھر حفظ مراتب دیکھنا اس شعر کو الٹ کر لیجیے پھر فارمولا جانچنے کا مل جائے گا۔ یعنی پہلے یہ دیکھ کہ کس کا حفظ مراتب کیسا ہے۔ پھر جانے کا پتہ چل جائے گا۔ جہاں پناہ کچھ ماہ قبل لال حویلی والے مصاحب سے بھی وزیر اطلاعات کی مناسب عزت افزائی کرا چکے ہیں۔ اندازہ خود کر لیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر موصوف کو ایک مشورہ دینا البتہ مناسب ہے۔ مشیر صاحب سے زور آزمائی کریں لیکن بس ٹویٹر پر‘ کبھی آمنے سامنے آنے کی غلطی مت کریں۔ مانا آپ کی صحت اچھی ہے لیکن اتنی اچھی نہیں کہ مشیر صاحب کا وار سہہ جائے۔ دانیال عزیز کی صحت بھی خوب اچھی تھی لیکن ایک ٹی وی پروگرام میں مشیر صاحب نے ایسی رکھ کر دی کہ بس کرسی پر جھولتے ہی رہ گئے۔ مشیر صاحب نے آنے والے دنوں کا اشارہ دیدیا ہے۔ کہا ہے نئے آنے والے حکومت کے فلسفے پر چلیں ورنہ پارٹی میں کوئی مستقبل نہیں۔ وزیر صاحب اشارہ سمجھ لیں نئے آشیانے کا انتخاب ابھی سے کر رکھیں۔ آثار اچھے نہیں لگتے۔ ٭٭٭٭٭ ایک اور بلند مرتبت مصاحب گورنر کے منصب پر فائز ہیں۔ گورنر ہائوس میں دیو ہیکل اور مہنگی موٹر سائیکلوں کی ریس کراتے رہتے ہیں۔ ایک روز پہلے فرمایا‘ ہماری حکومت نے شرح افزائش بارہ فیصد سے بھی زیادہ کر دی ہے۔ سعودی ولی عہد نے وزیراعظم ہائوس میں دوران خطاب فرمایا تھا کہ گزشتہ برس پاکستان کی شرح افزائش ساڑھے پانچ فیصد پہنچ گئی جو بہت اچھی بات ہے۔ ہو سکتا ہے گورنر صاحب نے اسے نواز شریف کی تعریف سمجھا ہو اور اس کا برا مان گئے ہوں چنانچہ یہ بیان دیا کہ میاں ‘ ساڑھے پانچ فیصد کی کیا اوقات ہم نے تو بارہ فیصد کر دی۔ یہ الگ بات ہے کہ انہی کی حکومت نے ہدف کم کر کے چار فیصد‘ ساڑھے تین فیصد کے درمیان کر دیا ہے اور آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ اتنی بھی نہیں ہے بلکہ اڑھائی فیصد ہونے کا خدشہ ہے۔ خیر۔ مصاحب ہیں اور وہ بھی بلند مرتبت‘ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک ہی جست میں شرح افزائش امریکہ چین بھارت سبھی سے آگے دکھا دی ۔ حیران ہونا ہے تو چین امریکہ والے ہوں‘ ہم کیوں ہوں؟