قرآن پاک میں حضرت انسان کے بارے میں خدا تعالیٰ نے کیا خوب تبصرہ فرمایا ہے:’’کان الانسان عجولا‘‘ یہ انسان ہے ہی بڑا جلد باز۔ انسان کی یہ جلد بازیاں، پھرتیاں اور تیزیاں جنت میں بسر کرتے اس کے باوا آدم ؑکے عجلت اور بہکاوے میں آ کے ممنوعہ پھل کھانے سے شروع ہوئی تھیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اپنی انھی جلدبازیوں کی بنا پر انسان غلطیوںپر غلطیاں کیے چلا جاتا ہے اور’’خطا کاپتلا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ غالب نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا تھا: بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا حضرتِ انسان کی کچھ غلطیوں کی نوعیت تو ذاتی و انفرادی ہوتی ہے لیکن بعض کی قومی و اجتماعی، جن کاخمیازہ بعض اوقات پوری قوم یا نسل کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بقول منیر نیازی: جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا کاٹتا ہوں عمر بھر مَیں نے جو بویا نہیں پھر یہ حقائق بھی تاریخ کے پَنّوں پر درج ہیں کہ جس معاشرے میں انفرادی و اجتماعی غلطیوں کا تناسب کسی مقررہ حد سے تجاوز کرنے لگتا ہے خدا تعالیٰ اپنے ازل سے وضع کردہ اصولوں اور دور رس حکمتِ عملی کے موافق وہاں کسی پیغمبر یا نبی کو مبعوث فرما دیتا ہے، جو اُن بھٹکے اور راہِ راست سے ہٹے ہوئے لوگوں کو دوبارہ اپنی اصل کی طرف لَوٹنے اور خالق حقیقی سے رجوع کرنے کا درس دیتے آئے ہیں۔ یہ سلسلہ حضرت آدمؑ سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک وقفے وقفے سے جاری رہا اور اس دوران ایک لاکھ سے زائد پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ حضرت عیسیٰ ؑ تک آتے آتے تو انسانی مسائل و امراض اتنے پیچیدہ و دشوار ہو گئے کہ زیست مشکل تر اور موت سہل ترین ہوتی چلی گئی، حتیٰ کہ اس بیمار اور قریب المرگ معاشرے سے نمٹنے کے لیے خدا کو انھیںؑ ’مسیحائی‘تک کا معجزہ عطا کرنا پڑا۔ انھوں نے اپنے اسی معجزے کی بنا پراُمت کے تنِ مردہ و بیمار کو نئی زندگی اور شفا بخشنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بھٹکی ہوئی قوم تک خدائے بزرگ و برتر کا پیغام پہنچایا۔ وحشت زدہ و تخریب پسند لوگوں کو امن و آشتی اور حلیمی کا درس دیا۔ ان تعلیمات کا سلسلہ کم و بیش چھے صدیوں تک رواں رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انسان اپنی مرضی اور خود غرضی کے راستے پر چلتے چلتے ایک بار پھر انسانیت کے دائرے سے باہر قدم رکھنے لگا۔ اس کے جملہ امراض کا علاج ابنِ مریم کے بس میں بھی نہ رہا تو خدائے بزرگ و برتر نے ان کی ہدایت و راہنمائی کی خاطر اس ہستی کو مبعوث فرمایا جو نہ صرف وجہِ تخلیقِ کائنات تھی بلکہ ان کو دنیا میں قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ بننا تھا۔ انسان کی اس گری پڑی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے خدائے برحق نے اس بار جس ہستی کا انتخاب کیا اس کے بارے میں خود ہی فرما دیا: وماارسلنٰک الار حمت للعٰلمین o ساتھ ہی آپ ﷺ کی ذاتِ بابرکات پر سلسلۂ نبوت کی تکمیل بھی کر دی اور آپ ﷺ کو وہ کتاب، پیغام اور طریقہ ہائے اصلاح عنایت فرمائے جو ہر طرح کے حالات، زمانے اور انسانوں کیلئے قیامت تک کیلئے کافی و شافی تھے۔ لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے اور نرم روی و شائستگی کیساتھ سمجھانے بجھانے کے جو انداز خدائے لطیف و خبیر نے اپنے محبوب ﷺ کو ودیعت فرمائے ان میں ایک انداز لطافت، شگفتگی اور مزاح کا بھی تھا۔ یہ تو طے ہے کہ خالص مزاح وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں دماغ حاضر، دل زندہ و روشن، روح تازہ و نہال، حواس پوری طرح بحال اور مخاطب سے ٹھیک ٹھاک قسم کی محبت اور ہمدردی ہو۔ آنحضور ﷺ کی ذاتِ صفات و بابرکات میں یہ تمام کمالات بدرجہ اتم موجود تھے، یہی وجہ ہے کہ جب ہم آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر نظر کرتے ہیں تو قدم قدم پر ہمیں آپﷺ کی شگفتہ مزاجی، زندہ دلی اور الطافِ طبعی کے خوشنما پھول کھلے نظر آتے ہیں، آپ خود ہنستے، دوسروں کو ہنساتے اور اسی ہنسی ہنسی میں نہایت حکیمانہ نکات اپنے ہم صحبتوں کے گوش گزار کرتے جاتے۔ عربی زبان میں تو ویسے بھی مقولہ مشہور ہے کہ: المزاح فی الکلام کا الملح فی الطعام یعنی کلام میں مزاح اور ظرافت کو وہی مقام اور اہمیت حاصل ہے جو کھانے میں نمک کو۔ پھر انبیاؑ کو عام انسانوں سے یہ فوقیت تو بہرحال حاصل ہے کہ ان کا مزاح طنز سے عموماً پاک ہوتا ہے۔ اس سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مزاح کا مرتبہ طنز سے کہیں زیادہ ہے۔ وہاں یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ مزاح اور ظرافت عطیۂ خداوندی ہے اور طنز و تعریض حیلۂ انسانی… کیونکہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ میری زبان سے ادا ہونے والا ایک ایک لفظ حکم خداوندی کے مطابق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزاح خالص بھی مزا دے جاتا ہے بلکہ زیادہ پُر لطف ہوتا ہے کہ خدا کا عطا کردہ تحفہ ہے جب کہ اکیلی طنز ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ یہ خطا کے پُتلے آدم زاد کی اختراع ہے۔ آپ ﷺ جب کبھی مزاح فرماتے اس میں کسی خاطر شکنی کی بجائے، تالیفِ قلب مقصود ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے خُلق کو خُلقِ عظیم اور پوری کائنات کے لیے نمونہ قرار دیا ہے۔ وَاِنکَ لعلیٰ خلق عظیم (القلم) یاد رہے کہ آپ کے اسی خُلقِ عظیم میں انسانی تکریم اور فرائض کی نہایت عمدہ تکمیل کے احساس کیساتھ ساتھ شگفتگی اور ظرافت نہایت مناسب انداز میں موجود ہوتی تھی۔ حضرت عبداللہ بن حارثؓ سے روایت ہے کہ: ’’میں نے آپ ﷺ سے بڑھ کر دل لگی کرنے والا نہیں دیکھا‘ ادب ہو یا مصوری، سیاست ہو یا معیشت، ایک بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ ان کا جائزہ لینے کے لیے ہمارے ماہرین کی تان ہمیشہ مغربی مفکرین پہ جا کے ٹوٹتی ہے، حالانکہ بطور مسلم ہمار ی زیست کے سب رنگ، رویے، رُجحانات تو ختم المرسلین ﷺ سے شروع ہوتے ہیں اور انھی کے اقوال و افعال کی روشنی میں پروان چڑھتے ہیں۔ اسی طرح مزاح کی ماہیت بیان کرنے کے لیے بھی ہمیں ارسطو، کانٹ، برگساں، لی کاک کے چبائے ہوئے نوالے ہی مرغوب ہوتے ہیں، جب کہ ہمارے پیارے رسول ﷺ کا ظرافت و لطافت کی حمایت میں کتنا دلکش فرمان ہے کہ ’کسی انسان کو مسکرا کر ملنا عبادت ہے۔‘ صرف یہی نہیں بلکہآپﷺ کی با معنی اور مصلحت آمیز زیستسے مزاح کے مستقل آداب بھی متعین ہوتے چلے گئے۔ مثلاً یہ کہ ایسا مزاح نہ ہو جس سے دوسروں کو اذیت ہو… مزاح میں دوسرے کی حقارت کا پہلو شامل نہ ہو… مزاح کو مستقل عادت نہ بنا لیا جائے کہ اس سے دل میں سختی پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ کی سیرتِ پاک زندہ دلی، شگفتہ مزاجی اور لطف و کرم کے نہایت دل چسپ اور پُر اثر واقعات سے بھری پڑی ہے ، جن میں آپ ﷺ کے اعلیٰ ترین ذوق کی ایسی بھرپور اور لازوال عکاسی ملتی ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اُن کی لطافت اور تاثیر میں کمی نہیں آئی۔(جاری ہے)