قانون کسی بھی معاشرے کے اجتماعی شعور کا عکاس ہوتا ہے تو وکیل انصاف تک پہنچنے میں جج کا معاون۔ تھامس ہابز نے کہا تھا کہ یہ ریاست کی اتھارٹی ہوتی ہے جو ایک قانون کو موثر بناتی ہے ناکہ معاشرے کی دانش۔ اس لحاظ سے ہم کسی بھی ملک کے قوانین سے اس معاشرے کی اخلاقی اقدار کا اور وہاں قانون کی عملداری سے ریاست کی رٹ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاکستان میں قانون کی طاقت کا پول تو مقتدر سیاسی اشرافیہ کے سامنے بے بسی سے کھل چکا عدالت راہ دیکھتی رہ گئی اور ملزم گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے دبئی پرواز کرگیا۔ پورے نظام عدل نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ایک سابق وزیر اعظم کو مجرم قرار دے کر جیل کی کوٹھڑی میں بند کیا بھی تو طاقت ور اشرافیہ نے قانون کو خود جیل کے دروازے کھولنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قانون کی طاقت اور اس کے دست بازو انتظامیہ اور پولیس ہوتی ہے جو شہریوں کو قانون کی حدود میں رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پولیس کا ایک سپاہی پورے گائوں کے معتبر افراد کے ہاتھ ان ہی کی پگڑیوں سے باندھ کر تھانے گھسیٹ لاتا تھا آج پولیس کے اختیار کا عالم یہ ہے کہ جج کی موجودگی میں وکلا کسی وکیل کے خلاف ایک مقدمے میں گواہ بننے پر تھانیدار کی دھلائی کر دیتے ہیں۔ اخلاقی تربیت کا معیار یہ ہے کہ شکرگڑھ میں لکھے پڑھے وکیلوں کا ایک خاتون امرت بی بی پر تشدد قانون پڑھانے والوں کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی تھا افسوس !! بات پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں تک ہی محدود نہ رہی عدالت کے معاونوں کی اندھی طاقت کے طوفان سے خود عدالتیں بھی محفوظ نہ رہیں۔ لاہور کے ایوان عدل میں پاکستان کے نظام عدل کا تماشہ اس وقت بھی دنیا نے دیکھا جب وکلا نے ایل ڈی اے کے ایک کیس کی سماعت کے دوران سول جج کو پہلے تشدد کا نشانہ بنایا پھر جج کو انصاف کی کرسی سے اٹھا کر باہر دے پٹخا اور انصاف کے مندر کو تالا لگا کر ریاست اور عدالت پر اپنی اندھی طاقت کی دھاک بٹھا دی۔یہ جج کے سامنے پولیس اہلکاروں پر تشدد اور وردیاں پھاڑنے پر نظام عدل کی خاموشی کا ہی نتیجہ تھا کہ جب اس منہ زور طاقت کی لپیٹ میں خود عدالتیں آئیں تو انتظامیہ نے بھی آنکھیں موند لیں۔ رہے حکمران تو ان کا تو کھیل ہی قانون سے کھیلنا ہے۔ قانون شکنی کی صورت میں معاشرہ اخلاقی انحطاط کی طرف بڑھتا رہا اور ریاست کے تینوں ستون مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ مصلحتوں کا شکار رہے۔ جن بارز سے قوت لے کر وکلا قانون اور انتظامیہ سے کھلواڑ کرتے رہے اسی بار کو جج نے اپنا گھر قرار دیاتو وکلاء نے ان ریمارکس کو سمجھنے کے بجائے ان کو اپنی طاقت سمجھ لیا۔ پی آئی سی میں جو ہوا وہ ریاست کے تین ستونوں مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کی مصلحت انگیزیوں کا ثمر ہے۔ جیرمی بنتھم نے کہا تھا کہ وکیل کی طاقت قانون کی بے یقینی میں ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں عدلیہ اور بار کی مصلحتوں کے باعث جتھہ کی طاقت نے وکلا کو منہ زور کر دیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ آج یہ اندھی طاقت بنچ بار کو ہی کسی خاطر میں لانے پر آمادہ نہیں۔ بنچ بار کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے کہ بار ہی جج کا اصل گھر ہوتا ہے اور بار کے ہاتھ وکلا کے ووٹ نے پشت پر باندھ رکھے ہیں دو اڑھائی سو وکلا اپنے ووٹ کی دھونس دے کر بار روم سے ہسپتال پر حملہ آور ہوتے ہیں تو اس اندھی طاقت کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اس کا ہدف کون ہے۔ سٹنٹ ڈالنے اور اینٹ سے اینٹ بجانے تو ڈاکٹروں کی نکلے تھے مگر آکسیجن کے ماسک مریضوں کے اتار پھینکے، گاڑیاں پولیس کی جلائیں ،سر ان مریضوں کے لواحقین کے پھاڑے جن کا طاقت کی اس رسہ کشی سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ ایلزبتھ آسٹن کا قول ہے وکیل کے دفتر میں محبت کی کوئی جگہ نہیں، پر یہاں تو وکلا کی نفرت کا لاوا سڑکوں اور ہسپتالوں میں پھٹ رہا ہے۔ اسے ووٹ کی مجبوری کہئے! کہ سیاستدانوں کے سرمایہ کی چمک کا نتیجہ! قانون کی دیوار کے پار دیکھنے والی بارز کو سیاسی عناصر کے ہاتھ میں کھلونے بنتے اپنے وکلا نظر نہیں آ رہے۔ چند شرپسند سیاستدانوں کے ہاتھ کا کھلونا بنے وکلا بار کے عہدیداروں کو ووٹ کی دھونس دے کر ہسپتالوں پر حملہ کرنے پر اکساتے ہیں پولیس خاموش تماشا دیکھتی ہے اور انتظامیہ نقصان کا تخمینہ لگا کر نجی املاک کے نقصان کا عوام کے پیسے سے ازالے کا اعلان کر دیتی ہے۔ نظام عدل کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اعلیٰ عدالت کے جج انصاف کے بجائے وکلاء کو پی آئی سی میں پھولوں کے گل دستے لے جانے اور ڈاکٹروں کو گلے لگانے کا مشورہ دیتے ہیں ڈاکٹروں کو گلے لگانے کاکیونکہ۔۔۔ شریف مکہ رہا ہے تمام عمر اے شیخ یہ میر اب جو گدا ہے شراب خانے کا یہ ڈاکٹر بھی تو ینگ ڈاکٹرز کی قوت کے بل بوتے پر مریضوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑکر مرنے کے لئے چھوڑ کر ہڑتال اور تالہ بندی کرتے رہے ہیں۔ وکلا کو تو بار اور بنچ کی خاموشی سے شہہ ملتی رہی، ان ڈاکٹروں کی پشت پر کون تھا؟ ینگ ڈاکٹرز کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر کن کی اولادیں ہیں؟ ان کی قوت انتظامیہ عدلیہ اور مقننہ کے کون کون سے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں یہ جاننے کی کوشش نہ تو ہمارا قانون کرے گا نا ریاست۔ معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس زوال میں ریاست کے تین ستون اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔لالچ، اقتدار کی ہوس اور اقربا پروری معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ڈاکٹر ہوں، وکیل ہوں یا معاشرے کا کوئی بھی طبقہ ،اخلاق قانون کی پاسداری کی توقع دوسروں سے رکھتا ہے خود کو ضابطے، اخلاق کا پابند کرناتو ہمیں سکھایا ہی نہیں جاتا اور سکھائے بھی کون! !!کہ طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی دودھ تو ڈبے کا ہے تعلیم ہے سرکار کی