پہلے دو اشعار: ادھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگ اِدھر خیال نے پنچھی تمام نیلے کیے کمالِ نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے فنون لطیفہ میں شہرت اور قبولیت فن کار کے اپنے بس کی چیز نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں وہی سی لگتی ہیں جیسا کہ کسی شخصیت میں کرزمارکھ دیا جاتا ہے۔ ایک طلسماتی سا احساس جاگتا ہے یہ سب خوابی سا منظر ہے کہ کیسے صبا کے لمس سے کلی پھول بنتی ہے کیسے خوشبو بے بس ہو کر پھیلتی ہے۔کیسے پھول کی پتیوں پر شبنم گر کر آگ لگاتی ہے کچھ اس طرح کا عمل ہی تخلیق کار کے ساتھ ہوتا ہے بادلوں کی طرح آئے ہوئے خیالات بوندا باندھی بنتے ہیں یا کبھی موسلا دھار بارش۔ کچھ ایسا ہی منظر تھا کہ صبح سے وقفوں وقفوں کے ساتھ بارش جاری تھی۔ معروف اور منفرد مصور جنہیں آپ مصور اقبال اور فیض بھی کہہ سکتے ہیں‘ جناب اسلم کمال صاحب کے ساتھ ہماری ایک نشست رکھی گئی تھی۔ اس کا محرک جناب شاہد علی خاں مدیر الحمرا تھے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ شاہد علی خاں معروف اور یکے از اساتذہ حامد علی خاں کے فرزند ہیں۔ وہی حامد علی خاں جنہوں نے دیوان غالب مرتب کیا تھا اور اس کی خطاطی حضرت نفیس رقم نے فرمائی تھی۔ حامد صاحب کے سب سے بڑے بھائی مولانا ظفر علی خاں تھے اور سب سے چھوٹے حمید احمد خاں جو یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے اور ترقی پسند تحریک میں جنرل سیکرٹری ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ شاہد علی خاں کا خانوادہ علم و ادب سے مالا مال ہے۔ جم خانہ کے ہال میں بیٹھے ہم اسلم کمال کی لطیف اور دلچسپ باتیں سن رہے تھے۔ کھڑکیوں کے دبیز شیشوں سے باہر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا جو نہایت خوشگوار اور اجلا محسوس ہو رہا تھا ایک دو بار تو کسی نے باہر اس شیشے میں گیسو بھی سنوارے۔ تب شاہد صاحب گویا ہوئے کہ باہر سے اندر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ خیر ہم اسلم کمال کی جانب متوجہ ہوئے اور وہ اپنے سے انداز سے بات کو آگے بڑھانے لگے مگر انہوں نے کلیے اور روٹین سے ہٹ کر اسٹریشن کی بجائے poetry on canvasکی بات کی ہے۔ گویا انہوں نے مصوری کے دامن میں شاعری اتار دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بریڈ فورڈ میں انہوں نے اپنی ایک مداح کو جو کہ فیض کی بھی عاشق تھی کو بتایا کہ یہ بات ایک راز سے کم نہیں کہ اقبال کا تعلق بھی سیالکوٹ سے تھا اور فیض صاحب بھی۔ اور ان دنوں کا مصور اسلم کمال بھی سیالکوٹ کا ہے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ یہ اعزاز ان کے حصے میں کیسے آیا۔ وہ بتانے لگے کہ 1971ء میں انہیں سولو ایگزیبیشن کی اجازت ملی کہ اقبال کی شاعری پر مبنی ان کی مصوری وہاں آویزاں کی جائے۔ اس وقت کمال صاحب جوان تھے۔ نمائش سے پہلے ہی کچھ سازشیں شروع ہو گئیں۔ پہلے انہیں کہا گیا کہ صادقین کے اقبال کے حوالے سے کچھ فن پارے کبھی اس میں رکھ لیے جائیں۔ کمال صاحب مان گئے پھر ایک اور پرپوزل آ گئی کہ این سی اے کی پرنسپل نے بھی اقبال پر کچھ کام کر رکھا ہے۔ یہ بھی ہو گیا تب اسلم کمال نے عبدالرحمن چغتائی کے فن پارے بھی رکھوا دیے یوں چار مصوروں کی چیزیں وہاں رکھی گئیں۔ کمال صاحب نے باقاعدہ سگریٹ کی ڈبی لی اور اپنی نمائش میں آنے کے لئے میوزیم پہنچے وہاں منو بھائی نے ان سے ایک سگریٹ مانگا اسی طرح کسی اور نے بھی۔ پھر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پیچھے فیض صاحب بھی آ گئے اور دھیمی آواز میں انہوں نے بھی سگریٹ کا مطالبہ کیا۔ یہ محض اتفاق تھا جس سے سگریٹ لے کر سلگھاتے گئے وہ الگ کھڑا تھا کہ اسے کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ بھی نمائش میں ہے۔ خیر جب یہ لوگ فن پارے دیکھ رہے تھے تو منو بھائی نے اسلم کمال کو کہا کہ اسے فیض صاحب بلا رہے ہیں۔ کمال صاحب خوشی سے اڑتے ہوئے فیض صاحب کے پاس پہنچے فیض صاحب نے ان کے کام کی تعریف کی اور بہت سراہا۔ پھر دو تین روز کے بعد فیض صاحب عبدالحمید صاحب کو ساتھ لائے یہ وہی عبدالحمید ہیں جو کارواں بکس کے مالک ہیں اور انہوں نے فیض صاحب کے کلیات ’’نسخہ ہائے وفا شائع کئے تھے۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ اسلم کمال کی یادداشتیں سننے کے لئے ہمارے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہمہ تن گوش تھے جن میں شاہد علی خاں‘ تنویر ظہور‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ فرخ محمود اور ظفر ‘ ایک اور ثمر بار آئٹم یہ تھا کہ اسلم کمال صاحب نے اپنی خود نوشت ’’واقعات‘‘ بھی عطا کی اور یہ قیمتی یادیں الحمرا میں میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس کے بعد کمال صاحب نے فیض کی ’’رقیب‘‘ نظم سنائی: تم نے دیکھے ہیں وہ ہونٹ وہ پشیمانی و رخسار زندگی جن کے تصو ر میں لٹا دی ہم نے تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے ہم نے ایک مصرع دہرایا تو کمال صاحب نے کہا ’’سعد ایسے پڑھو جیسے میں پڑھ رہا ہوں’’واقعتاً‘‘ وہ فیض کی نظم ایسے پڑھ رہے تھے جیسے یہ ان پر وارد ہوئی ہو۔ میں انہیں کہتے کہتے رہ گیا کہ کیا انہوں نے یہ نظم فیض صاحب سے بھی سنی تھی۔ فیض صاحب تو اپنی شاعری کچھ اچھے انداز میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ ایسے پڑھتے جیسے کسی کی شاعری سنا رہے ہوں ۔ اس کے بعد مجھے بھی کچھ کہنے کو کہا گیا۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں میں منیر نیازی کی طرف جایا کرتا تھا۔ ایک قلق دل میں رہ گیا کہ فیض صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔ کون جانتا تھا کہ وہ 1984ء میں ہمیں چھوڑ جائیں گے۔ فیض صاحب کے ہاں تو شاعری کا لاڈلا پن ہے۔ پرانی تراکیب کو جس حسن و خوبی سے انہوں نے برتا ہے کسی کے بھی بس کی بات نہ تھی۔ نفاست‘ قرینہ‘ سلیقہ اور ایک بانک پن ان کی شاعری میں ہے۔ اس کے بعد تنویر ظہور نے بھی اپنی داستانیں سانجھی کیں اور بتایا کہ پنجابی سنگت کے ایک اجلاس میں فیض صاحب کی صدارت تھی۔ ان کا بڑا پن اور ان کا ایفائے عہد دیکھیں کہ وہ کراچی سے جہاز پر آئے۔ صدارت کی اور چائے پئے بغیر ہی واپس ایئر پورٹ پر پہنچ گئے۔ شاہد علی خاں نے آخر میں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور ایک دو باتیں فیض صاحب کے حوالے سے کیں کہ ان کے والد حامد علی خاں مشاعروں میں فیض صاحب سے سینئر پڑھا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ وہ سینئر سمجھے جاتے تھے بہرحال یہ نشست بہت ہی کارآمد تھی کئی باتیں ہمارے لئے نئی تھیں۔ کم از کم میرے لئے تو نئی ہی تھیں ساری باتیں لکھنے کے لئے تو کئی کالم درکار ہیں۔