وطن عزیز میں ماضی کی حکومتوں نے معاشی طور پر ملک کو بدحال کر دیا تھا ۔ ادارے بھی انتظامی طور پر مفلوج ہو چکے تھے۔ عمران خان کے سامنے دہشت گردی، روز گار، احتساب جیسے چیلنجز منہ کھولے کھڑے تھے وہاں اسے اداروں کو بھی اپنی ڈگر پر ڈالنا تھا۔حکومت کے سامنے مسائل ضرور ہیں لیکن یہ ان کا مقابلہ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اسے راتوں رات کامیابی نہیں مل سکتی بلکہ اس کی جگہ کوئی بھی حکومت ہو وہ چند ماہ میں غیرمعمولی نتائج نہیں دے سکتی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جس انداز سے حکومت معیشت کی بہتری کے لئے کام کر رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معیشت 2021میں بحال ہونا شروع ہو جائے گی اور حکومتی اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آجائیں گے۔ عمران خان کو اس وقت ادائیگیوں کے توازن‘ بیرونی قرضے‘ مہنگائی اور سکیورٹی خدشات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ان مسائل کی وجہ سے براہ راست اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی معیشت تلپٹ ہو کر رہ گئی ہے ۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستانی وزارت خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دروان حکومتی پالیسیوں، محصولات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے باعث ملکی معیشت میں مثبت رجحان متوقع ہے۔ جہاں تک اداروں کی کارکردگی کا سوال ہے تو رواں سال جون میں ایف بی آر نے اپنے ریونیو اہداف حاصل کر لئے۔ اس مالی سال کے نظر ثانی شدہ 3907 ارب روپے کے مقابلے میں ایف بی آر کے جمع شدہ ٹیکسوں کی رقم 3957 ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے جو کہ ہدف سے 50 ارب زیادہ ہے۔ ایف بی آر نے تاریخ میں پہلی مرتبہ گراس ریونیو کی مد میں 4 کھرب روپے کا ہدف حاصل کر لیا ہے جو کہ کورونا کی مشکلات میں رہتے ہوئے ایک قابل ستائش کارکردگی ہے۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے جون کے ہدف 398 ارب روپے کے مقابلے میں دن کے تین بجے تک 411 ارب روپے جمع کر لئے ہیں۔ ایف بی آر ترجمان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے باوجود انکم ٹیکس میں شرح نمو 5 فی صد ، سیلز ٹیکس میں 9 فی صد، ایکسائز ڈیوٹی میں 7 فی صد اور کسٹمز میں منفی 4۔8 فی صد رہی۔ اس سال ایف بی آر نے 235 ارب روپے کے ریفنڈ بھی ادا کئے جو پچھلے سال ادا کئے جانے والے 69 ارب کے مقابلے 340فی صد زیادہ ہے۔ کسٹمز ڈیوٹی میں کمی کی بنیادی وجہ غیر ضروری درآمدات میں کمی کی دانستہ کوشش ہے جس سے کرنٹ اکاونٹ کے خسارے پر قابو پایا گیا ہے۔ اس کمی کا محاصل پر براہ راست 700 ارب روپے کا اثر آیا جس کی وجہ سے دسمبر میں ایف بی آر کا ہدف 5505 ارب سے کم کرکے 4803 ارب روپے کردیا گیا تھا۔ دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی طرح کورونا وبا نے پاکستانی معیشت پر بھی منفی اثرات چھوڑے لیکن پاکستان کے مرکزی بینک کی پالیسیوں، حکومت کے احساس پروگرام اور مکمل لاک ڈاؤن کے بجائے اسمارٹ لاک ڈاؤن جیسے اقدامات کے باعث اگست میں پاکستانی معیشت میں بہتری آنی شروع ہوئی۔ مالی سال 2019 کی نسبت مالی سال 2020 میں پاکستان میں کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 78 فیصد کم ہوا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے امپورٹس یا درآمدات کو کافی بڑی تعداد میں کم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم سے حاصل ہونے والے زر مبادلہ میں بھی قریب دو ارب ڈالر کا اضافہ ہوا اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی مالی سال 2020 میں 88 فیصد اضافے کے ساتھ 2.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ معیشت میں بہتری آنے کے بعد جولائی 2020میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ جولائی2019 میں71 ملین ڈالر جبکہ جولائی2020میں114ملین ڈالرکی سرمایہ کاری ہوئی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق جاری مالی سال میں جولائی تا اپریل 20-2019 کے دوران ملک میں 2.281 ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ رواں مالی سال میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری بجلی اور گیس کی فراہمی کے شعبے میں کی گئی ہے جو 35 کروڑ ڈالر کے مقابلہ میں جاری مالی سال میں 62 کروڑ سے زائد ہو گئی ہے۔اس طرح غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے والا دوسرا بڑا سیکٹر ٹیلی کمیونیکیشن رہا ہے جس میں جولائی تا اپریل 2019-20 کے دوران 50 کروڑ نوے لاکھ ڈالر سرمایہ کاری کی گئی جبکہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں اس شعبے میں 11 کروڑ 5 لاکھ ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔کورونا وائرس کی وجہ سے لگاتار تین مہینوں میں خسارے کا شکار رہنے کے بعد پاکستان کی برآمدات جولائی کے مہینے میں مجموعی طور پر 5.8 فیصد اضافے سے بڑھی ہیں۔پاکستان کی برآمدات نے رواں سال اپریل، مئی اور جون کے مہینے میں کم رہی تاہم جولائی کے مہینے میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو لگ بھگ چھ فیصد تک رہا۔ پاکستان سرجیکل آلات، کھیلوں کی مصنوعات، چاول، پھل، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرتا ہے لیکن برآمدی شعبے میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی مصنوعات کا ہے، جو تقریباً 55 فیصد سے زائد ہے۔ ماہ جولائی میں پاکستان کی برآمدات میں تقریباً چھ فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب خطے کے دو اہم ملکوں یعنی بھارت اور بنگلہ دیش کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جولائی کے مہینے میں انڈیا کی برآمدات 13.7 فیصد جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 17 فیصد کی شرح سے گری ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں کورونا وائرس کی وجہ سے سخت لاک ڈاؤن نافذ ہے۔لہذا ان دونوں ممالک میں برآمدی شعبے کی جانب سے آرڈر کی تکمیل نہیں ہو پا رہی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پاکستان کے برآمدی شعبے نے پْر کیا ہے۔