کراچی(رپورٹ:ایس ایم امین) مرکزمیں حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے مطالبات پرعمل درآمد کے لیے وفاقی حکومت کوایک ماہ کی ڈیڈ لائن دینے کا فیصلہ کرلیا۔ایم کیوایم پاکستان نے کراچی اورحیدرآباد کیلئے ترقیاتی پیکیج اورمئیر کو اختیارات دینے سمیت معاہدے میں شامل دیگر مطالبات پر من و عن عمل نہ کرنے پرحکومتی اتحاد سے علیحدگی اوراپوزیشن بینچوں پربیٹھنے کی دھمکی دے دی۔وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) اور حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (ایچ ایم سی) کے لئے براہِ راست فنڈز جاری کرنے کی ہدایت پر6 ماہ بعد بھی عملدرآمد نہ ہونے پرمتحدہ وفاقی حکومت سے ناراض ہوگئی۔حکومت کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں ایم کیو ایم پاکستان نے وزیراعظم کو کراچی سے متعلق اعلانات اورمتحدہ قومی موومنٹ سے معاہدے پرعملدرآمد کے لیے ایک ماہ کا ٹائم فریم دینے اورتحفظات یاد داشت کے طورپر پیش کرنے فیصلہ کرلیا ہے ۔متحدہ کے سینئررہنماؤں اورہمدردوں نے تحریک انصاف کے رویے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے اوراصرارکیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف کی سرد مہری پروزیراعظم سے احتجاج کرے اورمطالبات پورے نہ ہونے پرآزاد حیثیت سے اپوزیشن بینچوں پربیٹھے جبکہ اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے کراچی سمیت سندھ کے شہری عوام کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جائے ،ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں نے پارٹی قیادت سے اصرارکیا ہے کہ وفاقی حکومت سے الگ ہوکراس تاثر کو بھی ختم کیا جائے کہ ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہوئے بغیر نہیں چل سکتی ۔ معتمد ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان اختلافات وفاقی وزیرفواد چوہدری کے ایم کیو ایم کے مستقبل سے متعلق بیان اورحکومت کی جانب سے کراچی اورحیدرآباد کو ترقیاتی پیکیج اورمئیرکواختیارات دینے سمیت معاہدے میں شامل دیگرمطالبات پرعملدرآمد میں تاخیرکے باعث پیدا ہوئے ہیں۔ گورنرسندھ عمران اسماعیل کی جانب سے ایم کیو ایم کے کنوینر اور وفاقی وزیر ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی سے رابطہ کرکے ان کی وزیراعظم سے ملاقات کرانے کی پیشکش کی گئی ہے ۔ تاہم ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف پرواضح کردیا گیا ہے کہ اگرایک ماہ میں معاہدے پرعملدرآمد کے لیے پیش رفت نہ ہوئی تو ایم کیو ایم اورتحریک انصاف کے راستے الگ الگ ہوں گے ۔