انتخابی ٹکٹوں کی بندر بانٹ نے سیاسی پارٹیوں کے بڑے پول کھولے ہیں، الیکشن دنگل کون جیتتا ہے، یہ تو پچیس جولائی کو ہی پتہ چلے گا،مگرالیکشن سے پہلے سیاسی قائدین اور ان کے سرمایہ کارکارکنوں کے سامنے ہارتے ہوئے ضرور دیکھے گئے ہیں، سیاسی کارکنوں میں شعور کی بیداری نظرآ رہی ہے جو مستقبل کی سیاست کیلئے خوش آئند ہے،پنجاب اور سندھ میں روزانہ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں ہم لوگ اپنے منتخب نمائندوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کرپوچھ رہے ہیں۔

پانچ سال کہاں رہے؟

ہمارا کون سا مسئلہ حل کرایا؟

ہم تم وڈیروں کو ووٹ کیوں دیں؟

ہمیں روزگار کس نے دینا تھا؟

ہماری تعلیم،ہماری صحت کا دھیان کس نے رکھنا تھا ؟

وقت کے تیور بدلتے دکھائی دے رہے ہیں، لوگوں نے جھوٹے حکمرانوں کے سامنے سر اٹھا کر سچ بولنا شروع کر دیا ہے تو انجام بخیرہی ہوگا، اللہ کرے یہ سلسلہ تسلی بخش جواب ملنے تک جاری رہے،جب مزدورکا لہجہ حاکموں کے سامنے تلخ ہوجائے تو یہی انقلاب کی شروعات ہوتی ہے،بابا گرو نانک کا ایک مصرعہ ہے جسے بابا شاہ حسین نے بھی استعمال کیا۔

کوڑ پرجا، کوڑ راجہ، کوڑ سب سنسار

جب حکمرانوں کے ساتھ رعایا بھی جھوٹ بولنے لگے،تب سب کچھ جھوٹ ہوجاتا ہے۔ شخصیات کا جادو ٹوٹتا ہوااورنظریات کا جادو بولتا نظرآ رہا ہے، بیداری کی لہرتھوڑا پہلے پیدا ہوجاتی تو آج منظر نامہ یکسرنہ سہی بہت حد تک بدلا ہوا دکھائی دیتا۔اگرعوام یہ فیصلہ بھی کرلیں کہ پچیس جولائی کواثرورسوخ ، خاندانوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر یا پیسہ دے کر ٹکٹ حاصل کرنے والوں کوووٹ نہیں دینا تو انقلاب کی دوسری اینٹ بھی رکھی جاسکتی ہے، یہ عوام کے ذمے قرض بھی ہے اور فرض بھی،عوام کے حقیقی نمائندوں کو نظرانداز کرکے طاقتوروں کوالیکشن ٹکٹ دینے کا رحجان سیاسی پارٹیوں میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے، لیکن ناانصافی کے جتنے واقعات آج خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف میں دیکھے جا رہے ہیں وہ زیادہ باعث تشویش اس لئے ہیں کہ پی ٹی آئی سے وابستہ لوگوں نے سیاسی اورانتخابی کلچربدل دینے کی امیدیں باندھ لی تھیں، پی ٹی آئی کی طرف سے کسی انتہائی بری شہرت والے اورسنگین جرائم میں ملوث امیدوار کو ٹکٹ دینے کا ایک واقعہ پہلے سامنے آیا اور ایک ایسا ہی دوسرا واقعہ پھراجاگر ہوا، میڈیا رپورٹس کے مطابق پی پی کے ایک حلقے میںجس امیدوار کو ٹکٹ دیاجا رہا ہے یا دیا گیا ہے اس پر قتل اور زنا جیسے اکیس سنگین مقدمات ہیں، نارووال اور بدو ملہی میں تو کیسز ہیں ہی، لاہور کے ایک تھانے میں بھی تین افراد کے قتل کا مقدمہ درج ہے،ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے ایک پیشہ ور امیدوار کو اپنی جیب پر ہاتھ رکھ کریہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ میں چار کروڑ روپے لے کر گھوم رہا ہوں،اب ان پیسوں کا کیا کروں گا، یہ بیچارہ شاید یہ کہنا چاہتا تھا کہ چار کروڑ سے زیادہ پیسوں والے کو اسکی جگہ اکاموڈیٹ کر لیا گیا ہے۔ خان صاحب جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی ختم کرانے میں بھی ناکام رہے،یہ لڑائی پی ٹی آئی کی متوقع جیت کے بعد بڑھے گی کم نہیں ہوگی، پانچ چھوٹے سائز کی پارٹیوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھی اطلاعات ہیں،سنا جا رہا ہے، ضیاء الحق کے بیٹے سے بھی ہاتھ ملا لیا گیا ہے،پورے گجرات کو (ق) لیگ کیلئے کھلا چھوڑا جا رہا ہے،عوامی مسلم لیگ کو ہم پلہ جماعت ڈکلیئر کیا جا رہا ہے،وحدت المسلمین اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے امیدواروں کے مقابل بھی امیدوار نہیں کھڑے ہونگے۔ لوگ جس پی ٹی آئی کو فضاؤں میں اڑتے ہوئے دیکھ رہے تھے، وہ تو جماعت اسلامی کا نیا ورژن دکھائی دے رہی ہے،اگرعمران خان نے الیکشن کے بعد یہ کہہ دیا کہ سیاست ان کے بس کا کام نہیں تو اس وقت وہ لوگ کہاں جائیں گے جنہوں نے عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رکھا ہے، وہ بچیاں کہاں جائیں گی جنہوں نے پی ٹی آئی کی خاطر اپنی کردار کشی تک سہی۔ عمران خان کی الیکٹ ایبل پالیسی نے بھی لوگوں کو دکھی کیا، انہی الیکٹ ایبل مہروں سے جان چھڑانے کیلئے تو لوگ خان کے قافلے میں شامل ہوئے تھے، کیا 1970ء کے عام انتخابات میں الیکٹ ایبل کی تھیوری باطل نہیں ثابت ہوئی تھی؟عمران خان صاحب! لوگ تو سمجھ رہے تھے آپ کسی کھمبے کو ٹکٹ دینگے تو وہ بھی جیت جائے گا، آپ کی پالیسی نے تو آپ کے حامیوں کو رلا دیا، اسی طرح رلا دیا جیسے لاہور میں پی ٹی آئی آفس کے صوفے پر بیٹھے ہوئے فواد چوہدری کے سامنے آپ کی ایک سولہ برس پرانی لیڈی ورکررو رہی تھی،لگتا تھا وہ بے چاری بھیک مانگ رہی ہے، پی ٹی آئی کی قیادت بدقسمت ہے کہ اسے عوام کے اندر اپنے قد کا ادراک ہی نہ ہو سکا، اس کا خیال ہے،اسٹیبلشمنٹ نے جتا تو دینا ہی ہے، کارکنوں سے کیا لینا دینا؟ ہمارے خیال میں فیصلے نہیں بدلنے تو نہ بدلیں، کارکنوں کے آنسو ضرورپونچھیں۔

٭٭٭٭٭

(ن) لیگ میں ٹکٹ نہ ملنے کے بعد بہت باغی سامنے آئے ،منصب ڈوگر نے قیادت پر ٹکٹ کروڑوں میں بیچنے کا الزام لگایا،لگتا ہے سیاسی پارٹیوں اور ٹکٹ لینے والوں کے مابین کبھی نظریاتی رشتہ نہیں رہا،رشتہ ہے تو صرف دکاندار اور گاہک والا، پیسے دے کر الیکشن لڑو،جیت جاؤ تو جتنا چاہو مال بناؤ،ہار جاؤ تو اگلے الیکشن کا انتظار کرو،ن لیگ کے لئے یہ سال اچھا نہیں لگ رہا، نواز شریف اور مریم نوازکے لندن جانے کے بعد پنتیس برس سے اقتدار میں رہنے والی پارٹی کو انتخابی سیاست میں زندہ رکھنا شہباز شریف کے بس کی بات نہیں، نواز شریف کے بیانیہ سے انحراف کرکے کچھ حاصل نہیں ہوگا، الیکشن سے پہلے نواز شریف کو سزا سنادی گئی تو یہ شہباز شریف کیلئے بہت خطرناک ہوگا، مزاحمتی سیاست انہیں آتی نہیں اور مفاہمتی سیاست کا اب وقت نہیں۔نواز شریف کے گھر میں پل کر جوان ہونے والے زعیم قادری کی بغاوت کوئی عام واقعہ نہیں تھا، بغاوت کے جرثومے نہ جانے کب سے ان کے خون میں پل رہے ہونگے، نہ جانے کتنے سالوں کا ضمیر پر بوجھ اتارا ہوگا، سال دو سال پہلے ایک چینل کے دفتر کے باہر ملاقات ہوئی تو میں نے نواز شریف کے کچھ کرتوتوں کا ذکر کیا جن کے باعث آزادی صحافت کو بہت بڑا دھچکا لگا اور جن کی وجہ سے بے شمار سینئر صحافیوں کے روزگار اور کیریئرز کی تباہی ہوئی، زعیم قادری نے میرے الزامات کی تردید کرنے کی بجائے ہنستے ہوئے کہا، ہاں ! ایسا ہی ہوا ہے، جب میں نے پوچھا، کیا نواز شریف کا کوئی علاج ہے؟ تو جواب ملا، نہیں، جہاں ان کا مفاد ہوتا ہے وہاں کوئی اصول، کوئی قاعدہ قانون نہیں ہوتا۔

زعیم قادری صاف پانی پروجیکٹ اسکینڈل میں ملوث بتائے جا رہے ہیں، دیکھیں وہ خود کو بچاتے ہیں یا سب کو پھنسواتے ہیں ؟ انہیں مشورہ ہے کہ کہیں وعدہ معاف گواہ نہ بن جائیں ،اگران کے خلاف کوئی ٹھوس بات سامنے آگئی تووہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے،وہ تو باغی بھی اس جماعت کے ہیں، جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ قبضہ گروپوں کا مضبوط ٹولہ ہے،یہ لوگ زمینوں،مکانوں،دکانوں پر ہی نہیں،غریب لوگوں،غریب انسانوں پر بھی قبضے کر لیتے ہیں، بیکس لوگ خاندان در خاندان ان بااثراور سیاسی پشت پناہی رکھنے والوں کی غلامی میں زندگیاں ہار جاتے ہیں، ہم بھیانک اورانسانیت سوز حقائق پر مبنی کہانیاں آپ کے سامنے لاتے رہیں گے ،ظلم کی یہ ساری داستانیں صرف ن لیگ سے ہی وابستہ نہیں دوسری سیاسی (باقی صفحہ13پر ملاحظہ کریں)

پارٹیاں بھی ستی ساوتری نہیں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔بہت پرانی بات ہے میں ایک دوست کے ساتھ دبئی گیا، وہاں سڑک پر پیدل چلتے ہوئے ایک تیسرا پاکستانی مل گیا، اس نے ہمارا تاریخ جغرافیہ جاننا شروع کر دیا، جب وہ سب کچھ جان چکا تو میں نے اس سے کہا، کچھ اپنے بارے میں بھی بتائیے؟ جواب ملا، پنجاب میں ہماری حکومت ہے، ستے ای خیراں نیں، میں نے کہا ، آپ سے آپ کے روزگاراورکاروبارکے بارے میں پوچھ رہا ہوں،، ساڈا اوتھے قبضیاں دا کم اے جی۔

٭٭٭٭٭

تیسری بڑی سیاسی اورانتخابی پارٹی ہے پاکستان پیپلز پارٹی، پی پی پی کی سندھ میں مقبولیت کا گراف آجکل پنجاب میں ن لیگ کے گراف سے زیادہ ہے تو اس پارٹی سے لوگوں کی شکایات بھی بہت زیادہ ہیں،مراد علی شاہ کو غصے میں آتے ہوئے اورموبائل فونز چھینتے ہوئے نیوز چینل سکرینوں پر سب نے دیکھا ،سکھر میں خورشید شاہ اور ناصر حسین شاہ کا گھیراؤ ہوتے ہوئے بھی سب نے دیکھا، سندھ میں میر ہزارخان بجارانی کے صاحبزادے میر شبیر بجارانی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے دیرینہ خاندانی تعلق چھوڑ گئے، خورشید شاہ نے گھر جاکر ان سے معافی مانگی مگر وہ نہ مانے، بجارانی کی پریس کانفرنس میں دائیں بائیں جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کے لوگ بیٹھے تھے،یہ ایک الارمنگ سچوئیشن تھی۔ لوگوں کو بلاول بھٹو زرداری سے بھی بہت توقعات ہیں،انہیں اپنے ارد گرد میلوں تک پھیلے ہوئے مگر مچھوں سے محتاط رہنا ہوگا۔

گھوڑے بھی سامنے ہیں،میدان بھی تیار،

فیصلے کی گھڑی میں صرف تین ہفتے باقی