میں نے وعدہ کیا تھا کہ منیٰ کے بعد میں تفصیل سے حج کے حوالے سے لکھوں گا۔ منیٰ کا تو تذکرہ ہو چکا کہ 64لوگوں کے لیے ایک خیمہ تھا اور عورتوں کے لیے 100عورتیں ایک خیمہ میں تھیں خیموں کی تعداد معلوم نہیں۔ وہاں سے ہمیں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء پڑھ کر نکلنا تھا۔ اگرچہ اگلے روز کی فجر سنت میں شامل ہے مگر ہمیں بتایا گیا کہ وقوف عرفات کے خطا ہونے کے ڈر سے رات ہی کو عرفات کے لیے کوچ کر لیا جائے گا۔ فرض کا ادا کرنا ضروری ہے۔ ہمارے پاس تو ٹرین کے ٹکٹ تھے کہ ہمیں ہمارے کمروں ہی میں یہ ٹکٹ جو پلاسٹک بینڈ کی شکل کے تھے مل گئے تھے اور سب نے اپنی کلائی پر باندھ لیے۔ جو بسوں کے ذریعے گئے ان کا حال اپنی جگہ کہ آسان ہرگز نہیں ہو گا۔ بمپر ٹو بمپر ٹریفک ہو گی 32لاکھ کے ہجوم میں ٹرین ٹکٹس بہت کم ہونگی۔ پرائیویٹ تو یقیناً بسوں اور گاڑیوں میں ہونگے۔ ہمیں ایک جلوس کی صورت میں منیٰ سٹیشن ون لے جایا گیا اور یہ آسان کام نہ تھا۔ ہجوم کو قسطوں میں آگے بھیجا جا رہا تھا۔ اس کے بعد طویل زینے کہ دو تین مرتبہ سیڑھیاں چڑھ کر ہم پلیٹ فارم پر پہنچے۔ پہلے لوگوں کو ویٹنگ ٹریک میں داخل کیا جاتا اور پھر ٹرین آئی تو دروازے کھلتے ہی حاجی اندر کی طرف لپکے۔ بیٹھنے کی گنجائش تو اتنی نہیں تھی۔ اکثر کھڑے ہو گئے ہارن بجا اور ٹرین وہاں سے تیزی کے ساتھ نکلی دس منٹ میں یا اس سے بھی پہلے ہم عرفات سٹیشن پر تھے یہ منیٰ سے 12کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ جسے ٹرین کے بغیر طے کرنا جوئے شیر لانا ہی ہے۔ حج کے موقع پر یہ سہولت نہایت قیمتی اور آسودگی فراہم کرنے والی ہے۔ لاکھوں لوگ اس پر سفر کرتے ہیں وہ دوسرے راستوں کے لیے بھی کچھ آسانی فراہم کر دیتے ہیں۔ اگر سب کو بائی روڈ آنا پڑے تو پتہ نہیں کیا ہو۔ حج کا مجمع اتنا بڑھ چکا ہے کہ ان کی حکومت کے لیے کنٹرول سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرین کے بارے میں بتاتا چلوں کہ یہ بالکل ہماری اورنج ٹرین کی طرح پلروں پر بنے ہوئے ٹریک پر چلتی ہے۔ ہر تین چار منٹ بعد ٹرین گزرتی ہے۔ عرفات پہنچے تو ہمیں ہمارے خیمے تک لے جایا گیا۔ خیمہ کیا تھا ایک بڑی سی سرائے تھی جس کو جہاں جگہ ملی ڈھیر ہو گیا کہ رات گزارنی ہے اور اگلے روز زوال کے بعد دھوپ میں کھڑے ہو کر دعائیں کرنا تھیں۔ یہ سب اللہ کے مہمان تمنائوں اور آرزئوں کو دل میں چھپائے صبح کے منتظر تھے۔ فجر کی نماز پڑھی تو سنتوں کے بغیر ہی فرض پڑھائے گئے کہ پتہ چلا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی دو فرض پڑھائے تھے۔ اس کے بعد وہاں کھانے پینے کا سامان بھی تقسیم ہونے لگا۔ ہمارا سرکاری ناشتہ بھی تھا مگر قطاروں میں کون کھڑا ہو۔ بہر حال زوال شروع ہوا تو دعائوں کیلئے لوگ باہر نکلے۔ ہمارا تصور تو یہ تھا کہ یہ عرفات چٹیل میدان ہو گا مگر وہاں تو کئی درخت وغیرہ بھی تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادل آئے اور موسم خوشگوار ہونے لگا۔ سب نے شکر کیا کہ اتنی شدید دھوپ میں بارش کا ماحول بن گیا۔ یہ تو گمان میں نہیں تھا کہ بارش بھی ہو سکتی ہے۔ بہت برس گزر گئے کہ حج کے موقع پر بارش نہیں ہوئی۔ بہت پہلے ہوئی تھی اور منیٰ میں پانی بھر آیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کن من شروع ہوئی اور یہ کنیاں کچھ بھاری بھاری تھیں۔ پہلے تو سب نے لطف اُٹھایا مگر جب بارش کا جھکڑ آیا تو اس نے خیموں کی ترپالیں اڑا دیں۔ جو باقی بچیںان میں یک دم پانی بھر آیا۔ لگتا ہے کہ وہاں کی انتظامیہ نے پیچ وغیرہ نہیں لگائے تھے اور وہ ایسے موسم کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ طوفانی جھکڑ نے پائپ بھی اکھاڑ دیئے۔ بس پھر کیا تھا سب خوفزدہ ہو گئے۔ دعائیں شروع ہو گئیں کہ اللہ اپنی رحمت ہی ہم پر رکھنا۔ عورتوں نے رونا شروع کر دیا۔ سچی بات ہے ایک مرتبہ تو دل دھک سے رہ گئے کہ اگر احرام بھیگ گئے اور پھر ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو لوگ ٹھنڈ سے ہی مر جائیں گے۔ کم از کم ہمارے قریب تو اتنے لوگوں کے لیے جائے پناہ نہیں تھی۔ کچھ لوگوں نے اذانیں دینا شروع کر دیں۔ اللہ کو ترس آ گیا۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک بہت بڑی آزمائش ٹل گئی۔ بادل آسمان پر ہوا کے دوش پر تیرتے رہے۔ بارش کے دوران یہ ہوا کہ انتظامیہ نے جتنا مال بھی پس انداز کیا تھا باہر آ گیا۔ وہی لوگ جو مانگنے پر ایک سے دو کیلے تک نہیں دے رہے تھے۔ وہ اس افراتفری میں سب کچھ بانٹنے لگے۔ کیلے ہی کیا سب کچھ پیکٹوں کی صورت میں رُلنے لگا۔ کوئی لینے والا نہیں تھا۔ لوگوں کو تو بس واپس جانے کی تھی کہ بارش کے باعث وہ سہم سے گئے تھے۔ وقوف عرفات اصل میں حج کا رکن اعظم ہے سب سے اہم ہے رکن اکبر بھی اسے کہتے ہیں۔ لوگ اس کے بارے میں زیادہ پریشان تھے کہ رہ نہ جائے۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حج کے تین فرائض ہیں۔ پہلا حج کی نیت کہ احرام باندھنے کے بعد نفل پڑھ کر کہنا ہوتا ہے کہ اے اللہ میں حج کی نیت کرتا ہوں یا کرتی ہوں تو اسے آسان کر دے اور قبول فرما۔ دوسرا رکن یا مناسک وقوفِ عرفات ہے کہ زوال سے غروب آفتاب تک عرفان کے میدان میں دعائیں کرنا ہوتی ہیں۔ اسے یوم دعا بھی کہتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کی سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ خطبہ مسجد نمرہ میں ہوتا ہے۔ وہاں تک پہنچنے کی کوشش لوگ کرتے ہیں مگر وہاں جگہ ملنا آسان نہیں۔ ہمارے وضو خانہ کی عمارت سے مسجد نمرہ بھی نظر آ رہی تھی اور جبل رحمت تھی۔ ہم نے بھی ان کا نظارہ کیا۔ حکم یہ ہے کہ عرفات میں غروب آفتاب پر مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ کے لئے کوچ کر جائیں۔ مغرب اور عشا مزدلفہ میں پڑھیں۔ اپنی پڑھیں یا جماعت کے ساتھ۔ بعض اوقات مزدلفہ آتے آتے رات کے ایک دو بھی بج جاتے ہیں۔ مگر جو حکم اس کے سامنے سرِ تسلیم خم ہے۔ عرفات سے نکلنے کا عمل بہت آہستہ تھا ٹرین کے پلیٹ فارم پر اتنے بڑے ہجوم کا پہنچنا آسان نہیں۔ لفٹ کا انتظام ہے مگر وہ صرف معذوروں اور بیماروں کے لیے یا پھر کوئی بہت ہی بوڑھا اور اسے سعودی شرطے یا منتظمین مان بھی لیں وگرنہ وہ یلاّ یلاّ کہہ کر آگے بھیج دیتے ہیں۔ ایک دنیا تھی کہ سیڑھیاں چڑھتی جا رہی تھی ۔ اس مرتبہ تو عجیب ہوا کہ ٹرینوں کی کراسنگ کے باعث یا کسی اور وجہ سے ہمارے مجمع کو پانچ گھنٹہ تک انتظار کرنا پڑا۔ انتظار بھی اپنے قدموں پر کھڑا ہو کر۔ اسی میں شوگر کے مریض بھی تھے اور دوسرے بھی۔ یہ ساری باتیں آپ کو ہی نہیں مجھے بھی ناقابل یقین لگتی ہیں۔