پروفیسر محمد سلیم گورنمنٹ کالج لاہور میںمیرے کولیگ تھے۔ ہم دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی ریٹائر ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے دُنیا بھر کی سیر کی ٹھان لی۔ اب تک کئی ممالک کی سیر کر چُکے ہیں۔پچھلی ملاقات میں انھوں نے حسبِ معمول چند نہایت دلچسپ باتیں سنائیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ (ا) کوریا میں ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس کے انتظامی دفاتر ایک بتیس منزلہ عمارت میں سمائے ہوئے ہیں۔ اتنے وسیع کاروبار کے مالک کے پاس ذاتی کار تک نہیں، اور وہ ہنگامی حالت میں ٹیکسی پر سفر کرتا ہے۔ (ب) جاپان کے ایک بڑے ادارے کا مالک بھی " بے کار" ہے اور اپنے ورکروں کے ایک فلیٹ میں انتہائی سادہ رہائش رکھے ہوئے ہے۔ (ج) سنگا پور کا ایک ۔شخص بارہ جہازوں پر مشتمل بحری بیڑے کا واحد مالک ہے۔ لیکن اس کی بیوی وکالت کے پیشے سے روزی کماتی ہے اور بوڑھی والدہ کسی سکول میں ٹیچر ہے۔ اقبال احمد خان صاحب نے ان مثالوں کے ذریعے سادہ زندگی کی اہمیت واضح کی اور بتایا کہ سادہ زندگی بسر کرنے کے معاملے میں بھی غیر ملکی لوگ ہم سے بہت آگے ہیں۔ ہم خان صاحب کی باتوں سے سو فیصد متفق ہیں لیکن یہ عرض ضرور کریں گے کہ اس میدان میں بھی ورلڈ ریکارڈ ایک پاکستانی کا ہے۔ اگر خان صاحب اس پاکستانی سے واقف ہوتے تو مندرجہ بالا لسٹ میں اول نمبر پر اس کا ذکر کرتے۔ یہ صاحب ، جنہیں محلے والے شاہ صاحب کہہ کر پکارتے ہیں، کراچی کے باشندے ہیں۔ ان کا کاروبار یہ ہے کہ خالی پلاٹ خرید کر ان پر مارکیٹیں، کوٹھیاں ، کئی منزلہ فلیٹس اور پلازے وغیرہ تعمیر کرکے کرائے پر اٹھا دیتے ہیں۔ دوسال پہلے ہونے والی ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ تقریباً پچاس لاکھ ماہانہ کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ممکن ہے اب یہ رقم ساٹھ، ستر لاکھ تک پہنچ چکی ہو۔ اب آپ ان کی سادہ زندگی کا مختصر حال سنیے: شاہ صاحب کی رہائش ایک چار منزلہ عمارت میں ہے جس میں فلیٹ ہی فلیٹ ہیں۔ لیکن شاہ جی خود کسی فلیٹ میں نہیں رہتے بلکہ اس عمارت کی چھت پر بیوی بچوں سمیت رہتے ہیں۔ چھت پر انہوں نے ٹین کی ایک اور چھت کھڑی کر رکھی ہے جس کے نیچے ایک بڑی سی بوسیدہ دری پر خاندان بھر کے بستر رکھے ہیں۔ ایک طرف کونے میں مٹی کے تیل کا چولہا ہے جس کے پاس چند ایک برتن پڑے ہیں۔ دوسرے کونے میں لکڑی کے ایک بینچ پر ملے جلے کپڑوں کا ڈھیر ہے۔ رات کو روشنی کے لئے شاہ صاحب کے خیال میں ایک بلب کافی ہے۔ گرمیوں کے لئے ایک پنکھے سے زیادہ کی ضرورت نہیں۔ بجلی کا کنکشن انہوں نے نچلے فلیٹ سے حاصل کر رکھا ہے اور یوں اس کا بل بھی نیچے رہنے والے کرائے دار کودینا پڑتا ہے۔ ان کا باتھ روم اس وسیع و عریض عمارت کی چھت کے ایک کونے میں واقع ہے جس میں نہ صرف ایک پلاسٹک کی بالٹی بلکہ ایلومینیم کا قدیم ڈونگا بھی ہے۔ شاہ صاحب کے بچے کارپوریشن کے سکول میں پڑھتے ہیں۔ بچے اتنے سادہ ہیں کہ ہوائی چپل کے ایک جوڑے سے پورا سال گزار لیتے ہیں۔ وہ پیدل سکول آتے جاتے ہیں۔ خود شاہ صاحب بھی ہمیشہ پیدل ہوتے ہیں۔ دور جانا پڑ جائے تو مجبوراً بس کا سہارا لیتے ہیں۔ اکثر کنڈکٹروں سے انہوں نے ذاتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں چنانچہ وہ احتراماً انہیں ٹکٹ کا نہیں پوچھتے۔ اگر کبھی مجبوراً رکشہ لینا پڑ جائے تو رکشے کا کرایہ دے کر کئی گھنٹے تک صدمے کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ شاہ جی کے گھر میں کوئی بیمار پڑجائے تو وہ فضول خرچی سے بچنے کے لئے ہمیشہ خیراتی ہسپتال میں جاتے ہیں۔ کوئی مہمان ملنے آجائے تو اسے نیچے سڑک پر ہی چلتا کر دیتے ہیں۔ اگر مہمان بچوں کے لئے کوئی چیز لایا ہو تو اس کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتے۔ شاہ صاحب بالعموم دھوتی کُرتے میں ملبوس ہوتے ہیں اور ہر سال باقاعدگی سے اپنے لئے ایک دھوتی خریدتے ہیں۔ موسم سرما میں اپنے اور باقی افراد خانہ کے لئے لنڈے بازار سے ایک ایک سویٹر خرید تے ہیں۔ جس کے پاس پچھلے سال کا سویٹر باقی بچ رہا ہو اس کے لئے بلاوجہ فضول خرچی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ شاہ صاحب کے بہت سے واقعات میرے علم میں ہیں۔ فی الحال ایک واقعہ سن لیں جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ سادہ زندگی گزارنے کا مطلب کیا ہے: شاہ صاحب کی بلڈنگ کے نیچے چند دکانیں ہیں جنھیں انھوں نے کرائے پر اُٹھا رکھا ہے ، ان میں ایک پرچون کی دُکان بھی ہے۔ ایک بار شاہ صاحب نے اِس دکان سے آٹے کی بوری خریدی اور پھر یہ ہوا کہ چار پانچ دن بعد بوری کی قیمت میں پچیس روپے کمی ہوگئی۔ اِس دوران آٹا استعمال ہوتا رہا۔ قیمت میں کمی کی اطلاع پر شاہ صاحب شدید پچھتاوے کا شکار ہوگئے۔ بار بار کہتے، "ہائے میں نے آٹا خریدنے میں جلدی کیوں کی۔ چاردن ٹھہرکر خریدتا تو پچیس روپے کی واضح اور ٹھوص بچت تھی" ۔ اِسی ادھیڑ پن میں رات گئے تک اُنھیں نیند نہ آئی ۔ صبح اُٹھتے ہی پھر اِسی مسئلے پر غورو خوض شروع کردیا۔ اپنی اہلیہ کے سامنے پھر یہی دُکھڑا رویا۔ وُہ اللہ کی بندی بھی اِس الجھن کا کوئی حل نہ بتا سکی۔ پھر اچانک شاہ صاحب اُٹھے۔ بوری کے پاس پہنچ کر بوری کو تنقید نظروں سے دیکھا اور اُسے اُٹھاکردکاندار کے پاس لے گئے ۔ دکاندار نے انھیں حیرت سے دیکھا کہ اللہ جانے کیوں بوری اٹھا لائے ہیں۔ پوچھا گیا تو خفگی سے کہنے لگے، " بڑے افسوس کی بات ہے۔ تم نے مجھے استعمال شدہ بوری دے دی ۔ آج صبح پچھلا آٹا ختم ہوا تومیں نے یہ بوری کھولی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اِس میں کئی کلو آٹا کم ہے۔ تم سے ایسی حرکت کی توقع نہیں تھی"۔ دکاندار نے جو ان کی نفسیات کا ماہر ہوچکا تھا، ان سے کہا " شاہ جی ! اِس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ آپ اِس بوری کے بجائے نئی بوری لے جائیں اور اطمینان کر لیں کہ یہ استعمال شدہ نہیںہے"۔ یہ سنتے ہی شاہ صاحب نئی بوری اُٹھا کر اُوپر اپنے گھر لے گئے۔ تھوڑی دیر میں پھر دکان پر آکر دکاندار سے کہنے لگے، " آٹے کی بوری کتنے کی ہے؟" ، " ڈیڑھ سو روپے کی" ، دکاندار نے جواب دیا۔ " لیکن تم نے تو مجھے پونے دو سو کی دی تھی" شاہ جی نے کہا۔ "شاہ صاحب! اُس وقت بوری پونے دو سو ہی کی تھی" " لیکن میں نے تو بوری آج لی ہے۔ تم فوراً میرے پچیس روپے واپس کرو"۔ یہ سُن کر دکاندارنے انھیں پچیس روپے دے دیے ، جنھیں جیب میں ڈال کر وہ رُخصت ہوگئے۔