صورت حال ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ لوگ پوسٹ عمران صورت حال پر گفتگو کرنے لگے ہیں۔ گویا وہ یہ طے کر چکے ہیں کہ عمران خان کی رخصتی یقینی ہے۔ اس کے بعد کے پاکستان پر کیا بیتے گی‘ میں ذرا احتیاط کر رہا ہوں‘ اس بات کو یوں بیان کر رہا ہوں کہ عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام پاکستان کو کن کن چیلنجوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ ہر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس وقت اتنی گرد اٹھ چکی ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کون وزیراعظم نہیں بننا چاہے گا مگر یہ بات میرے علم میں ہے کہ شہبازشریف جیسا کر گزرنے والا شخص بھی اس ذمہ داری کو سنبھالنے میں تذبذب کا شکار ہے۔ اسی لیے کہہ رہا ہے کہ قومی حکومت بنا لو‘ اس میں سے عمران کو نکال دو‘ باقی سب مل کر اجتماعی قوت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔ بہرحال اس بات پر غور و فکر شروع ہو گیا ہے کہ آنے والے دنوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ یہ دن آسان نہ ہوں گے۔ اللہ رحم کرے۔ عمران نے جہاں اور بہت سی غلطیاں کیں وہاں ان کی ایک غلطی قوم کو بہت مہنگی پڑے گی۔ وہ آئے تو انہوں نے آتے ہی چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب کر دیئے جو آج تک نہیں سدھر پا رہے۔ اور اب جاتے جاتے اپنے اقتدار کی خاطر انہوں نے امریکہ سے بھی تعلقات کو ایسا بگاڑاہے کہ اگر وہ رہ جاتے ہیں تو صرف امریکہ کے آلہ کار بن کر رہ پائیں گے اور اگر وہ چلے جاتے ہیں تو آنے والوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ امریکہ اور حلیفوں کے ساتھ اپنے مفادات کی حفاظت کیسے کی جائے۔ صورت حال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہم نے اب صاف صاف کہہ دیا ہے کہ امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ پہلے تو ہم نے صرف اشارے کئے‘ پھر تاثر دیا کہ امریکہ ہے‘ وزیراعظم نے بھی اپنی تقریر میں امریکہ کا اس طرح نام لیا جیسے غلطی سے منہ سے نکل گیا ہو۔ پھر آج صبح صبح ٹی وی پر خبر آتی ہے کہ ہم نے امریکی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ امریکی دفتر خارجہ اس بات کی واضح تردید کر چکا ہے اور صاف کہہ چکا ہے کہ ان کا پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم جب تک یہ تحریر شائع ہوتی ہے اس وقت تک ہم اور کیا کیا کر چکے ہوں گے‘ بہرحال حالات خاصے نازک ہو گئے ہیں۔ کیا خیال ہے کہ جب چین اور امریکہ جیسی طاقتوں کو ہم نے اپنے معاملات میں ملوث کر لیا ہو تو مقامی سطح پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ عوام کے جذبات امریکہ مخالف پیدا کرنے ہیں اور وہ بھڑک اٹھیں گے تاہم اسے اس کا بھی علم ہو گا کہ جب ملک کا مفاد مقدم ہو گا تو ہمارے قومی اداروں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔ کیا کسی قو م کی حب الوطنی اس بیانیے کا ساتھ دے سکتی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر یوں تنہا ہو جائے۔ جو باتیں سچ بھی ہوں انہیں کھلے عام نہیں بیان کیا جاتا۔ اور جس بات کے سچ ہونے پر بھی شک ہو اسے اپنی کرسی بچانے کی بے ہنگم کوشش کے لیے اچھالنا کہاں کی حب الوطنی اور تدبیر ہے۔ اس وقت میں نہیں چاہتا تھا کہ ماضی کی غلطیوں کا تجزیہ کروں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم نے ڈالر کی قیمت کو آسمانوں پر لے جا کر اور شرح سود میں بے محابا اضافہ کر کے ملکی معیشت کا جو حال کر دیا ہے اس کا فوری اپائے مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے سفارتی اور اقتصادی طور پر ملک کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سر جوڑ کر بیٹھا جائے اور آنے والے دنوں کے لیے ملک کی ترجیحات طے کرلی جائیں۔ شہبازشریف یہ بات ازراہ انکسار نہیں بلکہ اظہار حقیقت کے طور پر بیان کر رہے ہیں کہ ملک کو اس دلدل سے نکالنا ان کے اکیلے کے بس کا کام نہیں۔ میں اس سے آگے بھی ایک بات کرتا ہوں کہ یہ صرف سیاست دانوں کا کام نہیں۔ تو کیا میں دوسرے اداروں کو دخل اندازی کی دعوت دے رہا ہوں۔ جی‘ یہ بھی نہیں۔ پھر میں کیا عرض کر رہا ہوں۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک کی سلامتی اور بہتری سب کی ذمہ داری ہے۔ حمودالرحمن کمیشن میں یہ تاریخی بات بیان کی گئی تھی کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حاکمیت اللہ کی ہے اور ہم اس کے امانتدار یا خلیفہ ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف پارلیمنٹ اس کی ذمہ دار ہے۔ یہ ذمہ داری ہر ایک شخص اور ہر ایک ادارے کی ہے۔ عدلیہ بھی اس خلافت الٰہی کی امین ہے اور مقتدرہ تو خاص طور پر۔ جسے ہم اسٹیبلشمنٹ یا مقتدرہ کہتے ہیں اس کا منصب خواہ مخوا دخل اندازی نہیں مگر ہر معاملے پر ایک عقابی نگاہ رکھنا ضروری ہے۔ یہ ہر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے ذمے یہ کام لے ر ہی ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کے بجائے اس بات پر نظر رکھے گی کہ ملک کے سب ادارے احتسابی عمل کو شفاف بنائیں اور ملک سے بددیانتی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے معاون کا کام کریں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ایک زمانہ تھا کہ مقتدرہ سے اس بات کی توقع کی جاتی تھی کہ جس نے کوئی کرپشن کی تو اسے ان اداروں کا خوف ہوتا تھا جنہیں ہم آج مقتدرہ کہتے ہیں۔ یہ خوف اسی خاطر ہونا چاہیے کہ کوئی ملک کو بیچنے کی کوشش نہ کرے کوئی بددیانتی نہ کرے‘ حب الوطنی کے ساتھ‘ کرپشن پر زیرو برداشت کے ساتھ اگر یہ ادارے اپنا کردار ادا کریں تو ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے انہیں فوری طور پر کیا کرنا چاہیے‘ اس پر بات کرتے ہیں۔ آج ہی ارادہ تھا مگر پھر کبھی سہی۔