قبلہ اول مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لئے جمع مسلمانوں پر اسرائیلی پولیس کے بہیمانہ تشدد اور فائرنگ سے دو سو سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔افطاری کے بعد مسجد اقصیٰ کے گھیرائو اور فائرنگ کی فوری طور پر ٹھوس وجوہات سامنے نہیں آ سکیں تاہم ذرائع ابلاغ کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس میں کئی روز سے کشیدگی ہے۔ اس کشیدگی کی وجہ متعدد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کرنا ہے۔ مشرقی یروشلم سے ان فلسطینیوں کو نکالے جانے کے بعد کئی مقامات پر رمضان المبارک کے دوران جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔فلسطینی ہلال احمر ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ 83زخمی افراد کو ربڑ کی گولیاں لگی ہیں جن میں تین کی آنکھیں مجروح ہوئیں۔ دو فلسطینیوں کے جبڑے ٹوٹے ہیں اور دو کو سر پر گہری چوٹیں آئی ہیں۔ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کے نزدیک مسجد اقصیٰ تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔یہودی بھی اس مقام کو حضرت سلیمانؑ کی تعمیرات اور عبادت گاہوں کے حوالے سے مقدس ترین سمجھتے ہیں۔اس لیئے دونوں مذاہب کے پیروکار آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔جب کبھی فلسطینی اور اسرائیلی انتظامیہ میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو بیت المقدس پر کنٹرول کا جھگڑا ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ دونوں مذاہب کے پیرو کاروں کے پاس اپنے حق میں تاریخی دلائل ہیں‘ دلچسپ امر یہ کہ اس علاقے میں رہنے والے مقامی یہودی اور عیسائی مقدس مقامات میں مسلمانوں کی سانجھ کے قائل ہیں لیکن دنیا کے مختلف علاقوں سے آ کر اسرائیل میں آباد ہونے والے یہودی اس بین المذاہب ہم آہنگی کو تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں۔وہ تشدد اور جبر سے مقامی عربوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر رہے ہیں ، انہیں اسرائیلی ریاست کی حمایت حاصل ہے جبکہ مظلوم فلسطینی دنیا کی ہمدردی سے یکسر محروم ہیں۔ جس علاقے میں تصادم ہوا اسے شیخ جرہ محلہ کہتے ہیں ۔شیخ جرہ محلہ دمشق دروازے کے قریب پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے۔اس علاقے میں ہوٹل، ریستوران اور قونصل خانے کے علاوہ فلسطینیوں کے بہت سے مکانات اور رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں۔مشرقی یروشلم 1967 میں اسرائیل کے قبضہ کرنے سے قبل اردن کے ساتھ ملحق تھا اور اردن کے ساتھ اس الحاق کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔حالیہ جھگڑے میں شدت اس وقت آئی جب یہودی آباد کاروں نے عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر محلے کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہاں رہنے والے یہودی خاندان 1948 کی جنگ کے دوران فرار ہو گئے تھے۔ دوسری طرف بتایا جاتا ہے کہ اردن نے 1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی رہائش کے لیے شیخ جرح کے پڑوس میں رہائش گاہ بنائی تھی اور لیز کے معاہدے اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔اردن کی وزارت برائے امور خارجہ کے ذریعے شائع شدہ دستاویزات کے مطابق یہ دستاویزات ان 28 خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو شیخ جرح کے پڑوس میں 1948 کی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔ترکمیڈیا نے محلے کے رہائشیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ رہائشیوں کی مشکلات سنہ 1972 میں اس وقت شروع ہوئیں جب سیفارڈک یہودیوں کی کمیٹی اور اسرائیل کی کنیسیٹ کمیٹی (اشکنازی یہودیوں کے لیے بنائی گئی کمیٹی) نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس علاقے کے مالک ہیں جس پر 1885 میں مکانات بنائے گئے تھے۔ بیت المقدس میں فلسطینی حقوق کے قومی اتحاد کے مطابق جولائی 1972 میں یہودیوں کی ان دونوں کمیٹیوں نے عدالت سے ’دوسروں کی املاک پر غیر قانونی حملے‘ کی بنیاد پر محلے کے چار خاندانوں سے گھر خالی کرانے کو کہا۔سنہ 1970 میں اسرائیل میں قانونی اور انتظامی امور کا قانون نافذ کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 1948 میں مشرقی یروشلم میں اپنی جائیداد کھو دینے والے یہودی اس کی بازیابی کروا سکتے ہیں۔اسرائیلی امن تحریک کا کہنا ہے کہ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسرائیلی قانون (1950 میں غیر حاضری کا پراپرٹی لا) 1948 میں اسرائیل میں اپنی جائیداد کھو دینے والے فلسطینیوں کو اس کی بازیابی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ان کے اثاثوں کی ملکیت ریاست کو منتقل کرنے کی اجازت ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشرقی یروشلم میںدو لاکھ سے زیادہ یہودی آباد کار آباد ہیں جہاں فلسطینیوں کی آبادی تین لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان عشروں سے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس مناتے ہیں۔یہ اس عزم کا اظہار ہے کہ مسلمان قبلہ اول کی آزادی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے‘ یوم القدس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو فلسطینی باشندوں کی تحریک آزادی کی حمایت کی ترغیب دی۔اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ جو جبر روا رکھا اس کے اثرات 57مسلم ممالک تک پہنچے۔اس سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے اسرائیل امریکہ او دوسرے بڑے ممالک کی سرپرستی میں ہر ظلم کرنے کے لئے آزاد ہے۔ مسلمانوں پر ظلم کشمیر میں ہو یا فلسطین میں، بین الاقوامی قوانین اور تعلقات کا ڈھانچہ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان ملک مظلوم فلسطینیوں کی مدد نہیں کر پا رہا۔ اقوام متحدہ کے معاملات امریکہ چلاتا ہے۔مسلمان ممالک کی او آئی سی ایک کمزور سی لرزتی ہوئی آواز سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے‘ ایسا کرنے میں تاخیر کی گئی توآج جو کچھ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہو رہا ہے کل کلاں کوئی دوسرا بھگت رہا ہو گا۔