حکومتی عمائدین چند دنوں سے خود کو مبارکبادیں دے رہے تھے کہ بالآخر اکانومی مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہونا شروع ہو گئی اور نئی اقتصادی ٹیم کے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں مثبت اقدامات کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔اس ضمن میں سٹاک ایکسچینج کے حوالے دئیے جا رہے تھے کہ ریکارڈ خسارے میں جانے کے بعد اوپر جانا شروع ہو گئی ہے۔پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کا بھی ماجرا عجیب ہے،یہ محض ایک جوا ہے اور اس کے بلند ہونے کی بنیاد پر دعویٰ کرنا کہ اقتصادی حالت درست ہو گئی ہے خود کو طفل تسلی دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ویسے تو ماضی کی حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ جب سٹاک مارکیٹ اوپر جاتی تو کہتے تھے کہ واہ واہ،یہ عوام کا ملک کی مستحکم صورتحال پر اعتماد کی غمازی ہے لیکن شیئرز کی قیمت دھڑم سے نیچے جاتی تو کہا جاتا کہ سٹاک ایکسچینج کا اکانومی کی صحت سے کیا تعلق؟۔ ایک آزاد، صحت مند اکانومی میں سٹاک ایکسچینج کا اوپر یا نیچے جانا خاصے معنی رکھتا ہے لیکن پاکستان میں تو چند بڑے گُرکے سٹاک ایکسچینج کے ذریعے عام آدمی کو جو اس میں انویسٹمنٹ کرتا ہے، الو بنا لیتے ہیں۔ ایک اور کامیابی جس کا بڑا چرچا ہے وہ جولائی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 71 فیصد کمی ہے۔یقینااسے ایک اچھی پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن خسارے میں یہ کمی اس لئے نہیں ہوئی کہ روپے کی قیمت میں قریباً چالیس فیصد ریکارڈ کمی کے باوجود جولائی میںبرآمدات میں محض گیارہ فیصد اضافہ ہوا ہے جو اب بھی پیپلزپارٹی (جی ہاں’ کرپٹ‘ پیپلز پارٹی) کے دور میں 25 ارب ڈالر کی برآمدات سے بھی کم ہے۔اصل میں خسارے میں کمی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے برآمدات میں کچھ حد تک براہ راست اضافے اوربلاواسطہ طور پر ملک میں اقتصادی سرگرمیاں کم ہونے کی بنا پر ہوئی ہے ۔ بڑے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری منفی ہے،اسی طرح بیرون ملک سے براہ راست سرمایہ کاری بھی ابھی تک نہیں آ رہی۔لہٰذا لا محالہ طور پر درآمدات کم ہوئی ہیں۔صرف ملک میں بننے والی یا اسمبل ہونے والی گاڑیوں کی مانگ میں تازہ اعدادوشمار کے مطابق پچاس فیصد تک کمی ہوئی ہے۔اس سے نہ صرف گاڑیاں بنانے والے مینوفیکچررز متاثر ہوئے ہیں بلکہ ڈاؤن سٹریم میں وہ صنعتیں جو گاڑیوں کے پارٹس بناتی ہیں وہ بھی متاثر ہوئی ہیں اور ان میں جو بھی درآمدی خام مال استعمال ہوتا ہے اس کی مانگ بھی کم ہوئی ہے۔ اس پس منظر میں یہ خبر کہ حکومت کے پہلے سال بالخصوص حالیہ چند مہینوں میں بجٹ کا خسارہ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے جو ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔محصولات تیزی سے کم ہوئے ہیں جبکہ سادگی اور کفایت شعاری کے تمام تر دعوؤں کے باوجود حکومت کے اخراجات وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں گزشتہ برس تھے بلکہ بعض مدات میں اضافہ ہوا ہے۔ نتیجتاً مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کی شرح کے طور پر 8.9 فیصد تک رہا حالانکہ اس ضمن میں حکومت نے اس سال کے شروع میں 4.9 فیصد بجٹ کے خسارے کا تخمینہ لگایا تھا۔اس وقت ملک کی مجموعی قومی پیداوار 38.6 ٹریلین روپے ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت ہی بڑا خسارہ ہے۔گزشتہ منگل کو وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پورے سال میں ملک کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 34.45 کھرب روپے (8.9 فیصد) رہا۔اتنا بڑا خسارہ 1979-80 کے بعد دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ سہ ماہی میں خسارے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔31 مارچ کو یہ خسارہ جی ڈی پی کا 5 فیصد تھا جو صرف تین ماہ میں بڑھ کر قریباً 9 فیصد ہو گیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے باوجود کہ ترقیاتی اخراجات میں گزشتہ مالی سال کے دوران 45 فیصد کمی کی گئی لیکن بجٹ خسارہ پھر بھی بڑھ گیا۔ماہرین اقتصادیات کے مطابق روپے کی قدر میں کمی اور شرح سودمیں اضافے کی بنا پر خسارہ بڑھا۔ شبر زیدی کی بطورچیئرمین ایف بی آر آمد پر اس بات کا بہت چرچا تھا کہ حکومت ٹیکس بیس میں اضافہ کر رہی ہے جو کہ ہونا بھی چاہئے لیکن رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران معاملہ الٹا ہی رہا ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح گر کر 12.7 فیصد ہو گئی جو 2017-18 میں 15.2 فیصد تھی۔محصولات میں مسلسل کمی اور اخراجات میں اضافہ اکانومی کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کرتے۔نئی اقتصادی ٹیم جو مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ،گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی پر مشتمل ہے کی کاوشیں اپنی جگہ پر لیکن اقتصادی صورتحال ابھی حوصلہ شکن ہے۔بجا طور پر اس گنجلک معاملات کا مکمل طور پر قصوروار موجودہ حکومت کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا،اس میں ماضی کی حکومتوں کی بوالعجبیاں اور شاہ خرچیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے قرضوں کا ہمالیہ کھڑا کر دیا تھا،عمران خان کی حکومت اب تک 9 ارب ڈالر سے زائد قرضے اور سود کی مد میں ادائیگیاں کر چکی ہے اور گزشتہ ایک برس میں خود بارہ ارب ڈالر کے قرضے لے چکی ہے۔ ناقدین کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط پر سجدہ سہو کر دینا اور اسی بین الاقوامی ادارے کے منظور نظر افراد کو ملک کی اقتصادی کشتی کا ملاح بنا دینے کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔شرح سود میں ریکارڈ اضافہ ، مہنگائی میں ڈبل ڈیجیٹ میں بڑھوتری اور اس کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی نے نہ صرف اکانومی بلکہ عوام کے لئے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔پاکستان کی کرنسی کو بین الاقوامی ایویلوایشن اتھارٹی نے ان کرنسیوں میں شامل کر دیا ہے جو غیر مستحکم ہیں۔اسی بنا پر ائیر لائنزبیرون ملک اب ٹکٹ ڈالروں میں کیلکولیٹ کر کے روپے وصول کرتی ہیں۔گاڑیوں کی مانگ میں کمی بھی اس حقیقت کی غمازی کرتی ہے کہ یہ مہنگی ہونے سے مڈل اور اپر مڈل کلاس کی بھی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔اس گھمبیر صورتحال میں غریب آدمی کا کچومر نکل رہا ہو گا،اس پر تو یہی کہا جاسکتا ہے۔’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘۔ یقینا وزیر اعظم عمران خان اس صورتحال سے پوری طرح آگاہ ہیں،اسی بنا پر وہ ہر ہفتے اکانومی پر خود میٹنگ لے رہے ہیںلیکن اس ضمن میں انہیں شاید جلد کوئی اصلاحی اقدامات کرنا پڑیں گے کیونکہ پہلے ہی آئی ایم ایف کی طرف سے ایک منی بجٹ کی بازگشت سنی جا رہی ہے۔اس ریکارڈ خسارے کے تناظر میں آئی ایم ایف کی ریویو میٹنگ میں قرضے کی اگلی قسط ملنے میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔