کیا عجیب اتفاق ہے کہ اس پورے خطے کے چاروں ممالک میں ایک ساتھ شہ سرخیاں بننے والے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں سعودی ولی عہد کی پذیرائی ہے، بیس ارب ڈالر سے زیادہ کی سودی سرمایہ کاری ہے، عمران خان کے ایک ابھرتے ہوئے لیڈر اور کامیاب حکمران ہونے کا چرچا ہے۔ بھارت میں اسکی گزشتہ ستر سالہ تاریخ کا سب سے بڑا اور پہلا خودکش حملہ ہوا ہے جس نے واضح کردیا ہے کہ کشمیر کا جہاد اب ایک بالکل مختلف موڑ لے چکا ہے اور اب یہ اس پرانی قوم پرستانہ روش اورجدوجہد سے بہت دور جا چکا ہے جو اقوام متحدہ کی راہداریوں اور پاک بھارت مذاکرات کی بھول بھلیوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے بھٹک رہی تھی۔ افغانستان میں طالبان کی امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر واضح برتری کے بعد پاکستان میں ہونے والے متوقع مذاکرات اور پھر اچانک ان کا ملتوی ہو جانا اور اس دوران کٹھ پتلی افغان حکومت کا اقوام متحدہ کو پاکستان کے خلاف اس بات پر باقاعدہ احتجاجی مراسلہ کہ پاکستان طالبان سے مذاکرات کی راہ ہموار کر کے ہمارے معاملات میں براہ راست مداخلت کر رہا ہے، اور خطے کے چوتھے ملک ایران میں پاسداران انقلاب کے قافلے پر سیستان بلوچستان میں حملہ، 27 پاسداران کی ہلاکت اور پاکستان پر براہ راست الزام۔ خطے کے ان چاروں ممالک میں ہونے والے ان واقعات کا مرکزی نکتہ پاکستان ہے۔ معاشی منصوبہ بندی کے خواب اپنی جگہ لیکن زمین جنگ کے لئے تپ چکی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے، سیاسی مبصرین اسے ایک اتفاق بھی کہتے ہیں اور سازش کے تانے بانے بھی جوڑتے ہیں۔ لیکن وہ جو اپنے حالات حاضرہ کی توجیہہ بھی قرآن پاک میں دی گئی ہدایات اور سید الانبیاء ﷺکی آخر الزماں اور دور فتن کے بارے میں کی گئی پیش گوئیوں کی بنیاد پر کرتے ہیں، ان کے لیے نہ تو یہ سب ایک محض اتفاق ہے اور نہ ہی کسی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ، بلکہ قضا و قدر کی طاقتیں اس پوری دنیا اور خصوصا اس خطے کو اپنے اس عظیم منصوبے کے تحت ایسی سمت کشاں کشاں لے جارہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہم سب ایک بڑی عالمی جنگ، آرمیگڈون یا ملحمتہ الکبریٰ کا ایندھن بننے والے ہیں۔ عمران خان کی کامیابیاں ان تمام معاشی پنڈتوں کو مبارک ہوں جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مینوئل کھول کر معاشی مستقبل کی پیش گوئیاں کرتے ہیں اور دنیا بھر میں آکٹوپس کی طرح پھیلے ہوئے بینکاری نظام کے آئینے میں ملکوں کے مستقبل کو دیکھتے ہیں۔ ایسے معاملات میں یہ لوگ دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک کی رائے یہ ہو تی ہے کہ اس طرح کی امداد، سرمایہ کاری، آسان اقساط اور کم شرح سود پر قرض لینے کی وجہ سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا، جبکہ دوسروں کی رائے میں یہ قرضوں کا جال "Debit Trap" ہے اور کل اس دلدل میں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا۔ یہ دونوں گروہ اس جدید سودی مالیاتی عالمی نظام کی چھتری تلے مختلف انداز میں ترقی کے خواب دیکھتے ہیں۔ لیکن وہ جو اس خالق کائنات کے احکامات اور رسول اکرم ﷺکے ارشادات کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرتے ہیں ان کے نزدیک اس نظام سے منسلک رہنا خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر اس نظام کے تابع رہ کر نواز شریف اور بینظیر فلاح نہیں پا سکے تو عمران خان نے اللہ سے کوئی عہد نہیں لیا ہوا کہ وہ تہہ در تہہ قرضوں کے جال کو اسی سودی مالیاتی نظام کی دوا سے حل کرنے کی کوشش کرے گا اور ملک فلاح بھی پا جائے گا۔ کسقدر حیرت انگیز ہے ان علماء اور دانشوروں کی یہ دلیل کہ چونکہ ہم نے بحیثیت قوم یہ عہد کر رکھا ہے، اس لیے ہمیں اسے نبھانا ہوگا اور اب ہمارے پاس قرض در قرض اور سود در سود کے جال میں پھنسے رہنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔ یہ علماء و دانشور ایک ایسے دور میں یہ تجویز دے رہے ہیں جب گزشتہ بارہ سال یعنی 2006 سے پوری دنیا میں سودی قرضوں سے نجات کی ایک عالمی تحریک چل رہی ہے اور اس کا آغاز رافیل کوریا نے ایکواڈور میں انتخاب جیت کر 89 فیصد ملکی قرضے کو ناجائز قرار دے کر انہیں ادا کرنے سے انکار کر کے کر دیا تھا اور دنیا نے اس کی یہ دلیل مان لی تھی۔ کیا عمران خان رافیل کوریا بن سکتا تھا۔ ہاں بن سکتا تھا اگر اس کے مشیرانِ خاص اس سودی عالمی مالیاتی نظام کے گرویدہ، عاشق اور کاسہ لیس نہ ہوتے۔ لیکن اس آخر الزماں کے پہیے نے تو چلنا ہے اور ہم تیزی سے اس کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ہماری ساری تیاریاں، بیس سالہ پلاننگ، سی پیک، ترقی کی منزل کی جانب بڑھتے ہوئے قدم سب کے سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، اپنے ارد گرد نظر تو دوڑاؤ۔ دنیا اس وقت اس دور میں داخل ہو چکی ہے جس کے بارے میں سید الانبیاء ﷺنے فرمایا تھا "لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب ہر کوئی سود کھانے والا ہوگا، اگر سود نہ بھی کھائے تو اس کا غبار اسے ضرور پہنچ کررہے گا" (نسائی: کتاب البیوع)۔ یہ سب اچانک نہیں ہو گیا، اس کے پیچھے تقریبا 300 سال کی پلاننگ ہے جس نے اس مالیاتی نظام کو تخلیق کیا ہے اور میرے آقا نے اس کی خبر دی تھی۔ کیا آج سے چودہ سو سال قبل جب حج الوداع میں سود کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ اس دنیا پر ایسا وقت بھی آجائے گا جب ہر کوئی سود کھا رہا ہو گا۔ ایک ایسا گناہ جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے۔ کیمونسٹ راج کے وقت دنیا کا بہت بڑا حصہ ایسا تھا جو اس سودی مالیاتی نظام سے منسلک نہیں تھا اور ان ممالک میں سود کا رواج نہیں تھا۔ لیکن 1992 میں سوویت یونین کے خاتمے سے پوری دنیا پر اس دجالی، سودی مالیاتی نظام کا راج مستحکم ہو گیا ہے۔ اب یہ پوری دنیا اس مالکِ کائنات اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے اعلان کے لیے تیار ہے۔اب میرے اللہ کا غضب یقینی تھا۔ اسی لیے 1992 کے بعد کی دنیا کو دیکھ لیں تو یوں لگتا ہے پوری دنیا تیزی کے ساتھ اس بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ وہ منکرین حدیث جو اس دور فتن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث کو موضوع (گھڑی ہوئی) قرار دیتے تھے، آج وہ بھی گنگ ہیں۔ حیرت ان کے چہروں پر نمایاں ہے۔ مصر سے عراق، یمن سے شام سب کچھ تو ویسا ہی ہو رہا ہے جیسا میرے آقا نے بتایا تھا، اور اس جنگ کا ایک بڑا معرکہ جہاد ہند ہے۔ سعودی ولی عہد پاکستان آئیں ملائیشیا، بھارت یا انڈونیشیا جائیں سرمایہ کاریوں کی یاد داشتوں پر دستخط کریں مگر وقت کا پہیہ اب بالکل مختلف سمت میں چل چکا ہے۔ کشمیری اب اقوام متحدہ کی راہداریوں اور پاکستان بھارت مذاکرات سے مایوس ہو چکے ہیں۔ بھارت میں بسنے والے تئیس کروڑ مسلمان ستر سالہ ذلت و مسکنت کی وجہ سے وہ میزائل بن چکے ہیں جو کہ کسی بھی لمحہ جنگ کا ایندھن بن سکتے ہیں۔ کشمیریوں کا آئیڈیل اب نیلسن منڈیلا جیسا رہنما نہیں رہا بلکہ ملا محمد عمر جیسا مجاہد بن چکا ہے۔ پلوامہ کا واقعہ بالکل ویسا ہی واقعہ بن سکتا ہے جب بوسنیا کے شہزادے کا قتل جنگ عظیم اول کے آغاز کا پیش خیمہ بنا تھا۔ تمام تر معاشی منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی ولی عہد کے جانے کے اگلے دن عمران خان صاحب کو براہ راست اس لفظوں کی جنگ میں کودنا پڑا۔ لیکن شاید یہ اب زیادہ دیر تک لفظوں کی جنگ نہ رہے۔ اب معیشت کی ترقی کے خواب نہیں اس لشکر کی فتح کے خواب دیکھنے چاہئیں جسے میرے آقا نے جہنم سے آزادی، جنت کی بشارت اور اس میں شہید ہونے والوں کو افضل الشہدا کا لقب عطا کیا ہے اور ساتھ یہ بھی خوشخبری سنائی کہ تم ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لاؤ گے تو اپنے درمیان عیسیٰ ابن مریم کو پاؤ گے۔