کہتے ہیں کہ ہاتھی کے پائوں میں جو زنجیر اس کے بچپن میں ڈالی جاتی ہے وہ اسے عمر بھر نہیں توڑتا۔ اگر مالک اس کا مان نہ توڑے تو سر نواڑھے اس کے ساتھ عمر بتا دیتا ہے۔ عزت نفس پامال ہو تو بدلہ لیتا ہے۔ معافی مشکل، یا رفیق! میرا کچھ پکے جیالوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ شائستہ ، سلجھے ہوئے اور مہم جو۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جوانی سے ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہولیے تھے۔ انیس سو ستتر کے الیکشن سے لیکر بی بی رانی کی شہادت تک۔ برسوں سے گوشہ نشین ہیں اس امید کے ساتھ کہ اس پارٹی سے قیادت اٹھے گی اور پوری قوم کو یکجا کردے گی۔ جیالے پارٹی اور اس کی قیادت کے معاملے کو علیحدہ مانتے ہیں۔ پارٹی کو دوش نہیں دیا جا سکتا۔ پارٹی نے ن لیگ سے ہاتھ ملایا۔ انہوں نے بھی جی آیاں نوں کہا ہے۔ لیکن تمام جیالے ثابت قدم نہ رہ سکے۔ ان کے وہ دوست جنہیں پارٹی کی یہ ادا پسند نہیں آئی، بلے باز ہو گئے ہیں اور یہ کریڈٹ انہیں کو ہی جاتا ہے کہ عمران خان بانی پیپلز پارٹی کا ذکر عقیدت و احترام سے کرتے ہیں۔ دوسری طرف جن لیگیوں نے تحریک انصاف میں شمولیت کی ہے وہ میاں برادران کے طرز سیاست کوواقعی پسند نہیں کرتے۔ اب تحریک انصاف خلا سے نہیں اتری۔نوے کی دہائی کی سیاست سے اکتائے سیاسی کارکنان اس کا ایندھن ہیں۔ قیادت کی طرز سیاست میں اس حقیقت کا عکس پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگرزرداری صاحب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سترہ سالہ رفاقت کو مزید دس سال کے لیے طول دینا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دو ہزار چھ میں بش انتظامیہ کے ہاتھوں رفاقت کے بندھن میں بندھی تھیں۔ ماننے والی بات ہے کہ اس رشتے کو نبھانے میں سارا کمال آصف علی زرداری کا ہے۔ ورنہ برادرِ بزرگ کی اختیارات اپنے ہاتھ میں سمیٹنے اور یہاں تک کہ امیر المؤمنین بننے کی چاہ اس کی تنہائی کے لیے کافی تھی۔ ن لیگ کی دو ہزار تیرہ الیکشن کے بعد تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا ہوا تو ن لیگ کی سانسیں اکھڑ گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی نے حوصلہ دیا تو ہی پانچ سال نکال پائی۔ دو ہزار اٹھارہ میں پیپلز پارٹی اپنے خول میں نہ سکڑ کر بیٹھتی تو تو شاید آج ملک کی سیاسی تاریخ مختلف ہوتی۔ پیپلز پارٹی کے اعتماد کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ اپنے آپ کو ملک کا مسیحا اور بے بدل سمجھ رہی ہے۔ اسکی کچھ وجوہات ہیں۔ جب سے تحریک انصاف سیاست کے افق پر چمکی ہے، میاں برادران کا سب سے بڑا سہارا پیپلز پارٹی ہی ہے۔ اگر یہ غیر جانبدار ہوجاتی، جسکی تحریک انصاف نے بہت کوشش کی، تو ن لیگ بکھر چکی ہوتی۔ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو بعد از اٹھارویں ترمیم ابھرنے والے نظام کی بقا کی خاطر زندہ رکھا۔ جنوبی پنجاب کے جیالوں کے دل پر جو 'آرے 'چلے ہیں اس کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اب پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا حصہ بحال ہی نہیں بلکہ اس میں اضافے کی خواہاں ہے۔ رحیم یار خان، تھل اور دمان پر اس کا دعوی تو ہے ہی وسطی اور شمالی پنجاب میں بھی اپنے قدم جمانے کی خواہاں ہے تاکہ وفاق میں اسکے اقتدار کی راہ ہموار ہوسکے۔ کیا ن لیگ اس حوالے سے کچھ کرسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں بہت اگر مگر ہیں۔ پیپلز پارٹی کا المیہ یہی ہے کہ ن لیگ احسان کا مفہوم کم لیکن لین دین پر یقین رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مفادات واضح ہیں اور راستہ بھی۔ سندھ میں کب تک سکڑ کر بیٹھ سکتی ہے؟ وہ وجوہات جن کی وجہ سے یہ سندھ میں محدود ہوئی ہے دور ہونگی تو ہی دوسرے صوبوں میں اپنا مقام بنا پائیگی۔ یہی حقیقت اسے ن لیگ کا ابدی حریف بناتی ہے۔ پارٹی ہے اور قد کاٹھ بڑھانے کی اسکی فطری خواہش اسکے ساتھ ہے۔ جمہوریت پر یقینِ کامل اور ڈائیلاگ کو مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ پتہ نہیں کب کیا کر بیٹھے اور اسکا فائدہ اٹھالے تحریک انصاف۔ پیپلز پارٹی ساتھ ہوگی تو ن لیگ کی جان میں جان رہے گی۔ ورنہ مولاٰنا فضل الرحمٰن کی دعاوں پر کتنا گزارہ ہوسکتا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے ساتھ مقامی حکومتوں کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرتی ہے اور سندھ کے شہری علاقوں کوصوبائی معاملات میں شریک کرلیتی ہے تو وفاق میں اسکی پوزیشن مزید بہتر ہوجائیگی۔ اگر حکومت نہ بھی بنا سکی تو قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر سینٹ میں اپنی آواز موثر بناسکتی ہے۔ سیاست میں زرداری صاحب کی سوچ وہی ہے جو چوہدری شجاعت حسین کی۔ یعنی طاقت کے توازن پر یقین رکھتے ہیں اور اس حوالے سے انکا کردار سے ہی انکی قد و کاٹھ کا تعین کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر پیپلز پارٹی مرکز میں اپنی حکومت بنا سکتی ہے۔ یہاں پر نوے کی دہائی میں اس نے قومی صوبے کا خواب بیچا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے اس نے اپنا بیانیہ بدلا ہے۔ لسانی قوم پرستی کی حوصلہ شکنی کی ہے اور معاملے کو جغرافیائی تناظر میں دیکھا ہے۔ سرائیکستان سے جنوبی پنجاب کی طرف آنا مسلم لیگ ن سے لمبی ساجھے داری کے عزم کا واضح اظہار ہے۔ جنوبی پنجاب کے جیالے ، جنکی سوچ پنجاب اور نواز مخالف بیانیے پر پروان چڑھی ہے ،یہ کڑوا گھونٹ بھی پینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ صوبے کے معاملے پرکوئی عملی پیش رفت ہو۔ اس معاملے پر ن لیگ کی سوچ مختلف ہے۔ یہ دو بار پنجاب اسمبلی سے صوبے کو دو کے بجائے تین (بشمول بہاولپور) انتظامی یونٹوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کراچکی ہے۔ صوبے کاگورنر بھی اس نے بہاولپور سے لیا ہے۔ اس کا اصرار رہا ہے کہ نئے صوبوں کے معاملے پر کمیشن تشکیل دیا جائے۔ایک اصول بن جائے تو نئے صوبے بنانے کا کام کیا جائے۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی ہی نہیں ، اسکی حلیف قوم پرست پارٹیوں کا موقف ہے کہ جس صوبے میں ایسا مطالبہ موجود ہے، وہیں پر ہی یہ کام کیا جائے۔ بھڑوں کے چھتے کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ جنوبی پنجاب سے ووٹ لینے کے لیے پیپلز پارٹی کو وعدہ ہی نہیں بلکہ کچھ ضمانتیں بھی دینا پڑیں گی۔ صرف پچاسی ووٹوں کی حامل ن لیگ کو مسند اقتدار پر بٹھاسکتی ہے، جے بی کو صوبائی درجہ دلاسکتی ہے اور فاٹا کے انضمام سے پختونخواہ کے حجم میں اضافہ کراسکتی ہے تو اس کی سیاست کا آخرجنوبی پنجاب کو کب فائدہ ہوگا؟