اس دن پاکستان کے عظیم صوفی دانشور اشفاق احمد کی شدت سے یاد آئی؛ جس دن ملک کے بڑے شہروں میں بڑے احتجاجی جلوس بلند نعرے لگارہے تھے۔ جس دن شہروں کی شاہراہیں بند گلیوں میں بدل چکی تھیں۔ جس دن دل کی آگ جا بہ جا بھڑک رہی تھی۔ جس دن کچھ نوجوان اپنے وردی والے بھائیوں سے لڑنے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ جس دن اس ملک کے دوست فرشتوں کی اداسی فضا میں بکھری ہوئی تھی اور شیطان کی مسکراہٹ اس طرح سفر کر رہی تھی جس طرح سانپ سبز گھاس میں سرکتے ہوئے سفر کرتا ہے۔ وہ درد کا دن تھا۔ وہ سازش کی گھڑی تھی۔ وہ ایسا ماحول تھا جیسا ماحول گھروں میں اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جس وقت خاندان کے افراد ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کے لیے آگے بڑھتے ہیں اور مصوم بچے ڈر کر پیچھے چلے جاتے ہیں۔ یہ ماحول اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اچھی باتیں بھول جاتے ہیں۔ جب ہم ایک سچ کو دو زاویوں سے دیکھنے کے باعث ضد پر اڑ جاتے ہیں کہ سچ صرف وہ ہے جو ہر ایک کو نظر آتا ہے۔ جب کہ سچ کی دنیا کائنات جتنی وسیع ہے۔ سچ کا روپ ایک نہیں۔ سچ کے روپ انیک ہیں۔ سچ کی صورتیں الگ الگ بھی ہوسکتی ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ایسی باتیں ہم روز سنا کرتے تھے۔یہ وہ دور تھا جب اشفاق احمد نہایت سادگی سے بہت الجھے ہوئے مسائل کو آسانی سے سلجھاتا تھا۔ وہ دور تھا جب وہ اپنی باتوں کو زیادہ قابل فہم بنانے کے لیے ڈرامے لکھتا تھا۔ ان کی ایک ڈرامہ سیریز ’’معافی‘‘ کے فلسفے پر بھی تھی۔ ہم اس وقت تاریخ کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہمیں اشفاق صاحب کے معافی والے فلسفے کو بڑے غور سے سمجھنا ہوگا۔ وہ فلسفہ ہماری معاشرتی اور ملکی زندگی میں اس وقت جس اہمیت کا حامل ہے شاید اس سے قبل کبھی نہیں تھا۔جب دل میں غصے کی آگ بھڑک اٹھے اور دماغ میں غصے کا دھواں بھرجائے تب ہم پر واجب ہے کہ ہم معافی والا راستہ اختیار کریں۔ کیوں کہ معافی والا راستہ اس وقت کام آتا ہے جس وقت سارے راستے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ دھواں جو چاروں طرف پھیلتا جا رہا ہے ؛ یہ بظاہر تو احتجاج کا دھواں ہے مگر اصل میں یہ درد کا دھواں ہے اور اس دھوئیں کے باعث ہماری سرزمین بڑی تکلیف سے سانس لے رہی ہیں۔ یہ ملک جس کا نام پاکستان ہے وہ ملک ایک گھر کی طرح ہیں۔ ایک ایسے گھر کی طرح جس میں ہر مزاج کے افراد بستے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اشفاق صاحب ہمیں بڑے مزے اور بیحد سکون کے ساتھ سمجھاتے تھے کہ ’’معافی کا مطلب ہارنا نہیں جیتنا ہے‘‘ پھر وہ اپنی اس بات کو واضح کرتے ہوئے ہمیں بتاتے تھے کہ جب ہم کسی کو معاف کرتے ہیں تو ہم اس سے شکست نہیں کھاتے مگر ہم اس کو جیت لیتے ہیں۔اشفاق احمد ہمیں سمجھاتے تھے کہ معافی مانگنے والا کمزور ہوسکتا ہے مگر معافی دینے والا کبھی کمزور نہیں ہوتا۔ اگر ہم اپنے آپ کو معافی کے لیے تیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے مخالف سے آگے بڑھتے ہیں۔ معافی دینے والے کا قد ہمیشہ معافی لینے والے سے بلند ہوتا ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا: ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں …ہر کام کرنے میں…کسی کو یاد رکھنا ہو…کسی کو بھول جانا ہو…ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘ معافی میں کبھی دیر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ معافی کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ اشفاق صاحب ہمیں یہ بھی سمجھاکر گئے ہیں کہ ’’معافی ایک خدائی صفت ہے‘‘ اس کا وزن اٹھانا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ بقول اشفاق صاحب زندگی میں ایسے لمحات بھی آتے ہیں۔ زندگی ایسے موڑ سے بھی گزرنی ہے جب انسان کو بغیر محنت کیے اس عظمت کی بلندی مل جاتی ہے جہاں بغیر کسی محنت اور مشقت کے ؛ جہاں بغیر کسی قربانی اور ایثار کے انسان معافی دینے کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت ہم بحیثیت ملک اور بحیثیت قوم اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں ہم اپنے مخالفین کو معاف کرسکتے ہیں۔ اگر ہم چھوٹے اور معمولی قسم کے انتقام لینے سے باز آگئے تو ہماری لیے معافی کی بہت بڑی منزل اپنی بانہیں کھولے منتظر ہے۔ اشفاق احمد کی خوبی اور خوبصورتی یہ تھی کہ وہ اپنی گفتگو میں پہلی کی گئی بات پر اس طرح لوٹ آتے تھے جس طرح انہوں نے وہ بات کہی ہی نہیں تھی۔ یہ حقیقت صرف دانا لوگ جانتے ہیں کہ کبھی دہرانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات کو بار بار دہرانا ہے کہ ہم قومی کلچر کو فروغ دیے بغیر ان مسائل سے نہیں نکل سکتے جن مسائل کے باعث ہماری اجتماعی ارتقاء رک گئی ہے۔ ہمارے دشمنوں کی خواہش یہی ہے کہ ہم بحیثیت قوم آپس میں جنگ کریں اور یہ خوبصورت ملک خانہ جنگی کا منظر پیش کرے۔ مگر ہمارے بزرگ اور خاص طور پر اشفاق احمد صاحب جیسے ماڈرن اور کلاسیکل بزرگ اپنے علم اور عقل کی جو دولت چھوڑ گئے ہیں اس دولت کا فائدہ اٹھائیں۔