ملک کی معاشی ترقی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور وہ خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے کہ موجودہ حکومت معیشت کومندی سے نہیں نکال سکتی۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے پہلے ملک کو نادہندگی‘ ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ اسکے بعد کورونا وبا کو ایسے اچھی طرح قابو کیا کہ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں وبا کی تباہ کاریاں کم سے کم ہوئیں۔ پڑوس میں بھارت اور ایران میں وبا سے شدید جانی اور مالی نقصانات ہوئے لیکن کامیاب سرکاری حکمت ِعملی کے باعث ہمارے ملک میں وبا سے اموات کی شرح بہت کم رہی ۔ حکومت کی طرف سے مفت ویکسی نیشن کا عمل سرعت سے آگے بڑھایا گیا۔ ایسا ملک جسکے مالی وسائل کم ہیں اسکے ویکسی نیشن پروگرام کو اس خوش اسلوبی اور منظم طریقہ سے چلانا باعث ِتعجب ہے۔اس پراجیکٹ سے منسلک تمام لوگ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر سیاسی ارادہ مستحکم ہو ‘ عزم پختہ ہو تو ہمارے لوگ بڑے بڑے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وبا میں پاکستانی عوام ایسی بھوک اور معاشی تباہی کا شکار نہیں ہوئے جو بھارت میںدیکھی گئی۔ کورونا سے امریکہ میں نوّے لاکھ‘ برطانیہ میں بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ایران کی آبادی آٹھ کروڑ ہے ۔ وہاں کورونا وبا سے ایک لاکھ تیس ہزار افراد جاں بحق ہوچکے۔ ہماری آبادی بائیس کروڑ ہے ۔ اموات کی تعدادصرف اُنتیس ہزار۔ اس وبا کے دوران میں غریب لوگوں کو بھوک سے بچانے کیلیے سرکاری امداد اور تاجروں کو بلا سود قرضے دیے گئے۔ یوٹیلیٹی بلوں میں رعایت اور تاخیر سے ادائیگی کی سہولت فراہم کی گئی۔ حکومت اور بینکوں کے چودہ پندرہ سو ارب روپے کورونا وبا کا مقابلہ کرنے اور اسکے اثرات سے نپٹنے پر صرف ہوگئے۔ یہی رقم اگر ترقیاتی کاموں اور کاروباری سرگرمیوں پر لگائے جاتے تو آج عوام کی معاشی مشکلات کم ہوتیں۔ اسوقت پاکستان کے کم آمدن والے لوگ مہنگائی کی دُہائی دے رہے ہیں ۔ افراطِ زر کی سرکاری شرح سترہ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ تین برسوں میں بجلی کے نرخ چالیس فیصد بڑھ گئے ہیں۔ اس عرصہ میں کھانے پینے کی اشیا سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں۔ نچلے متوسط طبقہ کے لوگوں کی آمدن کا ستّر فیصد حصہ خاندان کی خوراک پر خرچ ہوتا ہے۔ شہروں‘ قصبوں میں جو لوگ حلال کی روزی کما رہے ہیں انہیںدقّت کا سامنا ہے۔ حکومت نے دو کروڑ خاندانوں کو راشن پر ایک ہزار روپے ماہانہ رعایت دینے کا فیصلہ کیا ہے جس پر جلد عمل بھی شروع ہونے والا ہے لیکن یہ نام نہاد ریلیف اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ تاہم مہنگائی کی موجودہ لہر پوری دنیا میں ہے۔ امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی ایسے مستحکم ‘ امیر ممالک بھی اس سے محفوظ نہیں۔ انڈیا میں تھوک میں افراط زر کی شرح ساڑھے بارہ فیصد ہوگئی ہے جو گزشتہ بیس برسوں میں سب سے اُونچی شرح ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اسلیے بھی زیادہ ہے کہ ہمارا انحصار بیرون ملک سے درآمدات پر زیادہ ہے۔صرف پیٹرولیم اور قدرتی گیس ہی نہیں ہم کھانے کا تیل‘ دالیںاور محدود مقدار میں چینی اور گندم بھی باہر سے منگواتے ہیں۔پاکستان کی درآمدات مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے بیس فیصد کے برابر ہیں۔ افغانستان کے چار کروڑآبادی کا بوجھ اس پر مستزاد ہے۔امریکہ نے اسکے زرمبادلہ ضبط کیے ہوئے ہیں۔افغانوں کی بنیادی ضروریات بہت حد تک پاکستان کے راستے پوری کی جاتی ہیں۔ یہ ایسا انسانی مسئلہ ہے کہ ہم کنّی نہیں کتراسکتے۔ تاہم ہماری قومی معیشت کے روشن پہلو کم نہیں۔ گزشتہ دو برسوں میں بڑے بڑے کاروباری اداروں‘ کارپوریٹ شعبہ کے منافع میںخوب اضافہ ہُوا ہے۔ مطلب‘ مزید سرمایہ کاری ہوگی اور ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ پیٹرول مہنگا ہوا ہے لیکن اسکی کھپت بڑھ گئی ہے۔رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں پیٹرول کی مانگ چودہ فیصد اور ڈیزل کی کھپت ستائیس فیصد بڑھی۔ ٹرانسپورٹ ترقی کررہی ہے۔ تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کے باوجود ضروری اشیاء کی مانگ کم نہیں ہورہی۔غریب آدمی کی سواری موٹر سائیکل دھڑا دھڑ بک رہی ہے۔ مڈل اور امیر طبقات سے متعلق اکثر و بیشتر اشاریے مثبت ہیں۔ پراپرٹی کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ کاروں کی فروخت زیادہ ہوگئی ہے۔موبائل فون کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پہلی بار پاکستان میںموبائل فون تیار ہورہے ہیں۔اس برس فروخت ہونے والے نصف فون ملک کے اندر بنے تھے۔ پاکستان موبائل فون برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے برانڈ والی کمپنیاں پاکستان میں موبائل فون تیار کرنے کے کارخانے لگاچکی ہیں۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ جوبن پر ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدگزشتہ سال اسی عرصہ کی نسبت پچیس فیصد زیادہ ہوئی۔پاکستان سے آئی ٹی خدمات کی برآمدتیزی سے بڑھ گئیں۔ زرعی پیداوار میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ کپاس کی بپمبر فصل ہوئی ہے‘ اندازوں سے ستّر فیصدزیادہ۔ تقریباً پچانوے لاکھ گانٹھیں۔ کاشتکار خوشحال ہوتا ہے تو زیادہ خریداری کرتا ہے۔ تجارت بڑھتی ہے۔ روپیہ پیسہ عام لوگوں کی جیب میں جارہا ہے۔یہ ترقی ایسے وقت میں ہورہی ہے جب امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے پاکستان کے گلے میں ایف اے ٹی ایف کا پھندا لگایا ہوا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) انتہائی سخت شرائط پر ڈٹا ہوا ہے۔تیزی سے بحال ہونے والی معیشت کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی معیشت کا بیشتر حصہ دستاویزی نہیں ‘ غیر رسمی ہے۔ وہ سرکاری اعداد و شمار میں منعکس نہیں ہوتی۔ تاہم معاشی ترقی میں اضافہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم آمدن والوں کو زبردست مہنگائی کے باعث جو مشکلات ہیں ان سے صرفِ نظر کر لیا جائے۔ حکومت کو راشن پروگرام کی رقم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حکومت بجٹ سے پہلے ساٹھ لاکھ سرکاری ملازموں اور پنشنروں کو عارضی مہنگائی الاؤنس دے تو وہ سکھ کا سانس لیں۔ امیر طبقات پر ویلتھ ٹیکس اور وراثت ٹیکس لگا کر اس مقصد کے لیے درکار رقم اکٹھی کی سکتی ہے۔