وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی سیاسی فورم برائے پائیدار ترقی سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا ہے کہ عالمی و علاقائی سطح پر کورونا وبا کے دوران عدم مساوات کے رویے سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت اس وقت تک مکمل بحال نہیں ہو گی جب تک امیر اور غریب ممالک مل کر پائیدار ترقیاتی مقاصد اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کی خاطر سرمایہ کاری میں تیزی اور سرمایہ کاری نہیں لاتے۔انہوں نے دولت مند ممالک سے کہا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کوحقوق ملکیت اختراع سے استثنیٰ دیں‘ لائسنس کے تحت غریب ممالک کو کورونا ویکسین تیار کرنے کا حق دیں۔ ویکسین کے نرخ مناسب رکھیں اور ویکسین خریداری کے لئے ترقی پذیر ممالک کو مناسب فنڈز جاری کریں۔وزیر اعظم نے ناجائز سرمایہ اور بلیک منی کی بڑی بڑی رقوم کو باہر جانے سے روکنے اور چوری شدہ اثاثوں کی ملک واپسی کے حوالے سے بھی بڑے ممالک کو کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔ جب سے عالمی مالیاتی ادارے اور تجارتی معاہدوں کا ریاستوں کے معاملات میں عمل دخل بڑھا ہے دنیا معاشی لحاظ سے کسی نہ کسی دھچکے کا شکار رہتی ہے۔ ضروری نہیں کہ کسی ریاست کا اپنا قصور ہو یا اس کی داخلی پالیسی کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں، مشکلات کا سبب کسی ہمسائے کی پالیسی یا خریدار کی طرف سے عائد کی گئی شرائط بھی ہو سکتی ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا۔ اس ادارے نے طاقتور اور بڑے ممالک کی مصنوعات کو دنیا بھر کے علاقوں تک رسائی کی مشکلات کو ہٹانا قانونی ذمہ داری بنایا‘ غریب اور پسماندہ ممالک کے مفادات نظر انداز کئے گئے۔ اس صورت حال میں چھوٹے اور علاقائی تجارتی بلاک بنانے کا رجحان سامنے آیا۔ المیہ یہ ہوا کہ پسماندہ ممالک اپنے علاقائی تنازعات اور جھگڑوں سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات نے چند ممالک کو نہیں بلکہ پورے پورے خطے کو متاثر کیا ہے‘ ان تنازعات نے عالمی برادری کو تقسیم کر کے دنیا میں ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں کا گلا دبایا ہے‘ تنازعات کو طے کرنے کا بین الاقوامی نظام اپنی صلاحیت اور ساکھ کھو رہا ہے۔ تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کے لئے عالمی برادری متحد نہ ہوئی تو سیاسی اور فوجی تنازعات جلد ہی بڑے معاشی تنازعات کی شکل اختیار کر لیں گے۔ماہرین نے بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے ڈھانچے اور دیوالیہ پن کے حوالہ سے نشاندہی کی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو دیوالیہ پن سے بچانے کیلئے افریقہ کے لئے اقتصادی کمیشن کی بنیادوں پر ادارے کا قیام بہت اہم ہے ۔جس سے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ اور سرمایہ تک رسائی میں وسعت پیدا ہوگی۔ ترقی پذیر ممالک میںاس وقت عمومی اتفاق رائے ہے کہ کوویڈ 19 کے بحران سے نکلنے کے لئے پائیدار ترقی کے ماڈل میں تبدیلی لانے کا موقع ہے اور اس تبدیلی کیلئے ترقی یافتہ ریاستوں کوترقی پذیر ممالک میںموسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کیلئے سالانہ 100 ارب ڈالر دینے کا وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ فورم برائے پائیدار ترقی میں اس امر کو تشویش ناک قرار دیا گیا کہ ترقی پذیر ممالک سے گزشتہ سال 178 ارب ڈالر ترقی یافتہ ممالک میں گئے۔ ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک میں وسائل کی منتقلی روکنے اور یہ وسائل دوبارہ واپس ترقی پذیر ممالک کے حوالے کرنے پر غور وخوض کیاجانا چاہئے،خاص طور پر ان رقوم کی واپسی کا طریقہ کار آسان بنانے کی ضرورت ہے جو منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل ہوئیں۔ بطور سپر پاور امریکہ کوویڈ19 کے خلاف عالمگیر ردعمل کی قیادت کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں صحت کے عالمی پروگراموں کے لیے 12 ارب ڈالر سے زیادہ مختص کرنے کے علاوہ کوویڈ19 کے علاج اور تشخیصی طریقوں اور ویکسینوں کی تیاری؛ انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد اور ہنگامی تیاریاں شامل ہیں۔جدت طرازی کے ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے امریکہ معاشی بحالی کے لیے بھی پوری استعداد رکھتا ہے۔ اپنی حکومت کی مدد سے امریکیوں نے کلینیکل آزمائشی تجربات میں کورونا وائرس کے انسداد میں انتہائی موثر دکھائی دینے والی کوویڈ19 کی ویکسینوں کی تیاری میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔بلاشبہ معاشی بحالی کے فیصلوں کا انحصار اس عالمی وبا سے ہونے والے نقصانات کے جائزوں کی بنیاد پر ہوگا۔ امریکہ کو تشخیصی معائنوں، سفری مراکز، ہوائی اڈوں اور طیاروں پر طبی ٹیسٹوں اور سماجی فاصلے جیسے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ترقی پذیر ممالک ،صنعت اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔کورونا کی وبا نے طبی یا مواصلاتی آلات جیسے انتہائی اہم سامان کے لیے ایک ملک پر ضرورت سے زیادہ انحصار میں مضمر خطرات کو بھی آشکار کیا ہے۔ کیونکہ اِس طرح سلامتی سے وابستہ متعدد خطرات کا خدشہ ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ایک طرف کورونا کی وبا سے متاثر ہوئے اور دوسری طرف ملکی دولت غیر قانونی طور پر بیرون ملک منتقل ہونے جیسے مسائل کا شکار ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بڑے ممالک‘ آئی ایم ایف ‘ عالمی بنک اور دیگر مالیاتی اداروںسے کہا جاتا رہا ہے کہ غریب ممالک کے ذمے واجب الادا قرض معاف کر دیے جائیں اس سے عالمی معیشت بحال ہو سکتی ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں لگ جاتی ہیں لیکن یہی سب کچھ بڑے ممالک زیادہ خوفناک طریقے سے کر کے اسے اپنے مالیاتی مفادات کا نام دے دیتے ہیں۔عالمی سطح پر پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان امتیازی روئیے کا خاتمہ کئے بنا معاشی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔