’’جوڈیشری کو ججوں کی بے صبری ، جلد بازی اور تکبر سے خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘‘ یادداشت پر زور ڈالنے کے باوجود نام یاد نہیں آرہا ، مگر دو ہزار سات کی چودھری کورٹ بحالی کی تحریک کے دوران کسی ممتاز ماہر قانون نے عدلیہ کے حوالے سے جن تین خطرات کی نشاندہی کی تھی، وہ برسوں بعد بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔بے صبری، جلد بازی اور تکبر۔۔معذرت کے ساتھ، ان دنوں ایک فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر اس طرح آسمان سر پر اٹھایا گیا ہے کہ اس پر حیرت ہوتی ہے۔ انصاف کے طالبوں سے اگر ان کی نامنصفی پر سوال اٹھایا جائے تو وہ کتنے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ردعمل پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ وہ ایک جج کے اثاثوں کی بازپرس پر اتنے شدید غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ذرا پہلے قاضی صاحب کی بات ہوجائے۔۔ ذاتی حوالے سے وہ اور ان کا خاندان بڑا قابل احترام ہے، بلکہ دہائی پہلے جب وہ محض ایک وکیل تھے اور بلوچستان کی جوڈیشری کا حصہ نہیں بنے تھے تو ایک دو ٹاک شوز میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔یقینا اس وقت بھی ان کا بڑا سخت موقف اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا کہ جس طرح اس وقت نظر آتا ہے۔ہمارے محترم قاضی صاحب سے ایوان صدر نے ایک ریفرنس میں یہ درخواست کی تھی کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ پندرہ سال پہلے ان کے بیوی اور بچوںکے نام پر جو فلیٹ خریدے گئے جن کی مالیت پاکستانی روپوں میں کروڑوں کی ہے تو یہ کن ذرائع سے آئے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قاضی صاحب نے جہاں اپنے ملکی و غیر ملکی اثاثے بتائے، وہاں یہ بھی بتا دیتے کہ یہ فلیٹ کس آمدن سے خریدے گئے تھے۔مگر قاضی صاحب نہ صرف اس ریفرنس کے خلاف ڈٹ گئے بلکہ ساری وکلا برادری کو بھی اپنے پیچھے لگا لیا یا ان کے پیچھے لگ گئی۔اس کیس کی سماعت دو ماہ سے جاری ہے۔ کئی بار بینچیں بنیں اور ٹوٹی ہیں، کئی معزز جج صاحبان نے اس میں شمولیت سے انکار کیا ہے۔ ابھی گزشتہ پیشی میں قاضی فائض عیسیٰ صاحب کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابق صدر اپنے دوست محترم منیر ملک کو قاضی عیسیٰ کیس سننے والی بینچ کے سامنے انتہائی متکبرانہ انداز میں دلائل دیتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔دلائل دینے کے ساتھ ساتھ وہ یہ حکم بھی صادر فرما رہے تھے کہ کیونکہ وہ بیمار ہیں، اس لیے اس کیس کو ان کی دی ہوئی تاریخ تک ملتوی کردیا جائے۔ اس موقع پر ایک اور قانون دان نے منیر ملک کو ہٹا کر قاضی فائز عیسیٰ کا کیس سننے والے جج کے خلاف جو زبان استعمال کی، اگر کوئی عام سائل یہ زبان استعمال کرتا تو توہین عدالت پر اس کے ہتھکڑی لگ جاتی۔ مگر بعد میں دیکھا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس سننے والے جج سے توہین آمیز سلوک کرنے والے وکیل کی ان کی برادری پیٹھ ٹھونک رہی تھی۔ کیس زیرِ سماعت ہے۔ اس پر آگے چل کر تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ مگر حالیہ برسوں میں خاص طور پر سابق صدر مشرف کے دور میں جس طرح بارز اور بنچوں کے سرخیلوں میں جو تکبر اور اشتعال آیا اس سے ایسا لگتا ہے کہ بارز اور بنچوں کے علاوہ ہرایک کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے مگر ان پر ناتو انگلی اٹھائی جاسکتی ہے اور نہ حرف گیری ہوسکتی ہے۔پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ وطن عزیز میں جمہوری اداروں کی پامالی اور آئین کی بے توقیری کی سب سے بڑی ذمہ دار ہماری جوڈیشری ہی رہی ہے ، اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب جسٹس منیر جیسے لائق و فائق جج نے پہلی دستور ساز اسمبلی توڑے جانے پر غلام محمد جیسے مفلوج گورنر کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔پاکستانی جوڈیشری کی جانب سے جو پہلا انتہائی قدم تھا اس کے بعد جب جب جمہوری حکومتوں کو توڑا گیا، پارلیمان کو لپیٹا گیا، منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا گیا تو اسی جسٹس منیر کیس کا حوالہ دیا گیا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ یہی جسٹس منیر جنہوں نے پہلی دستور ساز اسمبلی کے توڑنے کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا، پاکستان میں پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے وزیر قانون بھی بنے۔پورے ایک دہائی تک ساری جوڈیشری ایوبی آمریت کے ہر حکم کو صاد کرتی رہی۔ ہاں، جسٹس ایم آر کیانی ضرور یاد آتے ہیں جو وقتاً فوقتاً اپنے فیصلوں اور بیانات کے ذریعے عدلیہ کی ساکھ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے، لیکن جسٹس کیانی اپنی طبعی عمر پہنچنے سے قبل ہی اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ ایک بڑی عوامی تحریک کے نتیجے میں ایوبی آمریت رخصت ہوئی اور جنرل یحییٰ خان جیسا غاصب اس ملک کا حکمراں بناتو اس کی چھڑی پر بھی عدلیہ نے مہر ثبت کی۔ہماری ساری بار اور بینچیں سقوط ڈھاکہ کا منظر دیکھتی رہیں، مگر کوئی ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی بار کے بڑے یا جج نے بینچوں یا سڑکوں پر آواز بلند کی ہو۔اور پھر جی ہاں، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی وزیراعظم صدر مملکت کے ساتھ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی کیپ پہنی، اس پر بھی کسی بینچ نے نکتہ اعتراض نہیں اٹھایا۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، بھٹو صاحب کے دور میںتہتر کے آئین میں پہلی پانچ ایسی ترامیم کی گئیں کہ جس سے آئین کی جمہوری روح ہی قبض ہوگئی۔ حتیٰ کہ سانگھڑ کے ایک جج کو جب ہتھکڑی لگائی گئی تو کسی برادر جج نے آواز نہیں اٹھائی۔اب یہ ایک الگ تاریخ کا اپنا انتقام ہے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو جس طرح آئین کی دھجیاں اڑاتے رہے اور اس کے بعد جب ان کا ایک بڑی تحریک چلنے کے بعد تختہ الٹا گیا اور پھانسی پر چڑھایا گیا تو ہماری جوڈیشری کا رویہ قومی اتحاد کے قائدین سے مختلف نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ جسٹس مولوی مشتاق اور جسٹس انوار الحق کو جوار رحمت میں جگہ دے۔ ہمارے پنجاب اور وفاق کے ان چیف جسٹس صاحبان نے جس طرح بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ سنا اور فیصلے دیے، اسے آج تاریخ جوڈیشل مرڈر کے نام سے یاد کرتی ہے۔اور پھر جنرل ضیاالحق کا پوری ایک دہائی پر مبنی دور سیاہ جب سارے ملک میں ملٹری کورٹس قائم ہوئیں، جنہوں نے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو کوڑوں جیسی بہیمانہ سزائیں دیں، تو اس وقت بھی ہماری بارز اور بینچز دم سادھے بیٹھی ہوئی تھیں۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں جو بارز اور بینچز کی فصل تیار ہوئی اس کی گٹھی میں آمریت کی تابعداری گہرائی اور گیرائی سے بیٹھ چکی تھی، جس کا ثبوت نوے کی دہائی سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جب سابق صدر مرحوم غلام اسحاق خان نے محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کیا، تو اس وقت کی عدلیہ نے ان آمرانہ اقدام پر اپنی اپنی مہریں ثبت کیں۔ ایک بار پھر معذرت کے ساتھ، جوڈیشری پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب انتہائی قابل احترام مرحوم نسیم حسن شاہ نے پیپلز پارٹی کی وزیراعظم کی برطرفی کو جائز اور ن لیگ کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی برطرفی کو ناجائز ٹھہرایا تو اس پر سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک جج کا یہ تاریخی جملہ سامنے آیا کہ لاڑکانہ کے وزیراعظم کے لیے ایک فیصلہ اور لاہور کے وزیراعظم کے لیے دوسر۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری جوڈیشری میں کس حد تک تعصبات سرائیت کرگئے تھے۔ ابتدا میں جسٹس افتخار چوہدری نے جس طرح سابق صدر جنرل مشرف کی آمریت کو للکارا ، یقینا اس کے نتیجے میں باروں اور بنچوں کا وقار بحا ل ہوا۔ مگر بعد میں چودھری کورٹوں نے جو ستم ڈھائے، اس پر ہماری بارز کے سرخیل چوہدری اعتزاز احسن، علی احمد کرد، منیر اے ملک کی چیخیں نکل گئیں۔ یہ لیجیے عدلیہ کی ماضی کی تاریخ کے اوراق الٹتے ہوئے قاضی صاحب تو پیچھے ہی رہ گئے۔ چلیںاسے آئندہ کے لیے اٹھارکھتے ہیں۔ یوں بھی قاضی صاحب کا کیس زیرِ سماعت ہے، اس پر کچھ کہنا گو توہین عدالت کے زمرے میں آسکتا ہے، مگر یہ توہین عدالت کا لفظ بھی اب بذات خود مذاق بن چکا ہے۔