وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اعلیٰ عدلیہ کے دو ججز کے خلاف ریفرنس پر بریفنگ دی ہے صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے دائر کیے جانے والے ریفرنس میں سپریم کورٹ کے دو ججز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات عاید کرتے ہوئے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔ مس کنڈکٹ کے زمرے میں آنے والے ان الزامات کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل منصور علی خان کو معاونت کے لیے طلب کر لیا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے ضابطہ انکوائری 2005ء کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل شفاف اور ہموار سماعت کے لیے اٹارنی جنرل یا کسی دوسرے وکیل کی معاونت حاصل کر سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن سمیت بعض سیاسی جماعتیں بھی اس معاملے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ اپوزیشن حلقوں کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنے کے معاملے پر ایسے ریمارکس دیئے تھے جو مقتدر قوتوں کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کریم خان آغا پر الزامات کی نوعیت بہر حال اپوزیشن جماعتوں اور سپریم کورٹ بار کے صدر کے نکتہ نظر سے متضاد ہیں۔ دونوں معزز جج صاحبان پر کچھ الزامات ہیں۔ ان الزامات کی تحقیق اور پھر قانونی عمل کا ایک طریقہ کار ہے جسے حکومت اور سپریم جوڈیشل کونسل بڑی احتیاط سے دیکھ رہی ہیں۔ قانون کی عملداری کے حوالے سے عام شہری دیکھتا ہے کہ غیر مساوی طرز عمل رواج پا چکا ہے۔ با اختیاراور حکمران طبقات کا یا تو احتساب ہوتا نہیں اور اگر کبھی ان کے محاسبے کی نوبت آئے تو الزامات وہ نہیں ہوتے جس پر انہیں قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہوتا ہے۔ اس ملک نے ماضی میں نہایت قابل اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والے جج دیکھے اور ایسے جج بھی دیکھے جو قانون اور آئین سے زیادہ حکمرانوں کے وفادار رہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا معاملہ کسے یاد نہیں۔ میاں نواز شریف نے جسٹس سعید الزمان صدیقی کے ذریعے ان کے خلاف بغاوت کروا دی ۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس ملک قیوم کا حوالہ معروف ہے۔ میاں نواز شریف کے دست راست سیف الرحمان اور ان کے برادر خورد شہباز شریف نے متعدد ٹیلی فون کالز کر کے جسٹس ملک قیوم کو ہدایت کی کہ وہ بے نظیر بھٹو کو سخت سزا دیں۔ ان کالز کی ریکارڈنگ دستیاب ہے۔ یہ دو مثالیں نہیں متعدد ایسے جج ہیں جنہوں نے قوم اور ریاست کی بجائے با اثر طبقات اور ناجائز مراعات کو اہمیت دی۔ بے نظیر بھٹو اس طرح کے ججز کے فیصلوں کو ’’چمک‘‘ کا نتیجہ کہا کرتی تھیں۔ جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کیا تو حالات مختلف تھے۔جنرل مشرف اور ان کی حکومت غیر مقبول ہو چکے تھے۔ عوام جمہوریت بحالی تحریک کے لیے تیار تھے۔ مقتدر قوتیں بھی جنرل مشرف سے بیزار ہو چکی تھیں۔ ان حالات میں وکلاء تحریک نے پورے سماج کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اب حالات مختلف ہیں۔ فوج، حکومت اور اکثر سیاسی جماعتیں قانون کی بالادستی کی حامی ہیں۔ یقینا جن معزز جج صاحبان کے خلاف ریفرنس کی اطلاعات ہیں وہ ملک میں انتشار اور بے چینی کے حامی نہیں۔ ان کے پاس اپنا مؤقف پیش کرنے کا پلیٹ فارم موجود ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ الزامات سچ ثابت کرنے کے لیے حکومت کو ثبوت درکار ہوں گے۔ جھوٹے ثبوت اور ریکارڈ پیش کر کے حکومت اپنے لیے مسائل پیدا نہیں کرنا چاہے گی۔ ان حالات میں وکلاء تنظیموں یا عہدیداروں کے ذریعے کسی نئی تحریک کی کوشش ملک اور جمہوریت کے لیے مہنگی ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے عوام اور ادارے بتدریج سیکھ رہے ہیں کہ آئین سے انحراف کر کے کسی بحران کو دعوت دینے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ یہ سوچ شعور کی بیداری کی علامت ہے۔ اداروں کے درمیان محاذ آرائی ہو یا اداروں او رشخصیات کا ٹکرائو ہو نقصان ہمیشہ ملک کا ہوتا ہے، کم از کم پاکستان کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ اس طرز عمل سے کچھ افراد نے فائدہ اٹھایا مگر ہم سماجی و انتظامی ترقی کے شعبے میں پسماندہ رہ گئے۔ اگر کوئی سرکاری افسر بدعنوانی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ سزا کا مستحق ہے۔ اگر کوئی فوجی افسر جرم کرتا ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے اور اگر معزز عدلیہ کے کسی اہم ذمہ دار کی بابت شکایت آتی ہے تو اس کی چھان بین ضروری ہے۔ آئین اور قانون کی عملداری کا خواب کسی مخصوص طبقے کو احتساب سے ماورا قرار دینے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں عدلیہ تحریک اور ججز بحالی کی تحریک میں تمام سیاسی، سماجی اور ثقافتی طبقات شامل تھے، میاں نواز شریف کے مطالبات اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے وعدے کے باوجود ججز بحال نہیں ہوئے۔ آخر آرمی چیف جنرل کیانی کے کہنے پر افتخار چودھری اور ساتھی جج بحال ہوئے۔ اس تحریک کے بعد عدلیہ ایک حساس معاملہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں تواتر سے قانون اور آئین کی بالادستی کی حمایت کرنے لگی ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ دو برسوں میں 400فوجی افسران کو کرپشن اور غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے پر سزا دی گئی۔ یہ ایک تبدیل ہوتا پاکستان ہے جہاں کسی کا عہدہ، شخصیت اور حیثیت نہیں بلکہ صرف آئین کی بالادستی کو مقدم تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اردگرد بہت سی سازشیں رچائی جا رہی ہیں۔ ان حالات میں کسی قانونی عمل کو سیاست بازی کی نذر کر کے ملک کے لیے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔