مکرمی! معاشرے میں معذور خواتین کمترہی سمجھا جاتا ہے۔ ویسے معذور خواتین کو پیدائش سے ہی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی و جسمانی معذوری کے شکار افراد بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر مکمل طور پر دوسروں کے رحم وکرم پر آجاتے ہیں۔ ایسے میں ان کے اپنے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیں تو عمر کا آخری حصہ انتہائی مشکل حالات میں گزرتا ہے۔ جب ایک معذور لڑکے اور معذور لڑکی کی آپس میں شادی طے ہونے لگتی ہے تو پہلا منفی روّیہ جس کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے وہ یہ کہ کہیں ان کے گھر بھی معذور اولاد پیدا نہ ہوجائے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ اگر معذور بیوی مالی طور خود کفیل نہیں ہوگی تو کچھ عرصہ بعد شوہر اُسے بوجھ سمجھنے لگے گا۔ لیکن اگر معذور خاتون شوہر اور سسرال کا مالی سہارا بنے گی تو شادی شدہ زندگی کا سفر خوشگواری کیساتھ طے ہوگا اور منفی روّیوں کو کم ہوتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔ ہرمعذور شادی شدہ خاتون کو بہت سے منفی روّیے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ بہر حال معذور افراد خصوصاً معذور خواتین کیساتھ اُن کی معذوری جڑے دیگرمعاملات میں امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ (اللہ ڈتہ‘ دھنوٹ)