آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو روز قبل معیشت کے حوالے سے ہونے والے سیمینار میں واضح الفاظ میں کہا کہ اگر ملک کی معیشت کمزور ہو گی تو سلامتی کی صورتحال کمزور ہو گی۔ انہوں نے معروف تاریخ دان پائول کینیڈی اور ورلڈ بینک کے سابق صدر میکنامارا کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کے بغیر کوئی سیکیورٹی نہیں۔ معاشی صورتحال میں بہتری کی امید کے ساتھ انہوں نے خرابی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میںمشکل معاشی فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے مشکلات بڑھیں۔یہی ادراک ہے جس کی وجہ سے پہلی دفعہ فوج نے بطور ادارہ ملکی معیشت کی صورتحال کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں کسی قسم کے اضافہ سے انکار کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لینا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا، اصل چیلنج ان قباحتوں سے بچنا ہے جو سابقہ حکومتیں معاشی میدان میں کرتی چلی گئیں۔اگر بین الاقوامی اداروں سے قرض لے کر اسکا استعمال وہی ہو گا جو پہلی حکومتیں کرتی رہی ہیں تو پانچ سال بعد پھر نئی حکومت اور پرانی باتیں ہوں گی۔ اور خزانہ تو سابق حکومت ہمیشہ خالی ہی چھوڑ کر جاتی ہے۔دہائیوںسے پاکستان کی معیشت کو جس طرح سے چلایا جاتا رہا ہے اسکو بہت ہی فراخدلی سے ڈنگ ٹپائو معیشت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ دنیا بھر کے مالیاتی اداروں کی مالی معاونت اور کوشش کے باوجود ہم نے اس شعبے کو کبھی سنجیدگی سے بہتر بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ادھار لے کر کوئی ایسا منصوبہ یا صنعت لگانے کی کوشش نہیں کی جس سے ملکی معاشی آمدن میں کچھ اضافہ کیا جاسکے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے فکرمندی رکھتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ نہ صرف انکی فکر مندی برقرار رہے گی بلکہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے بر عکس واقعی جمہور کے لئے کام کرنے میں کامیاب ہوں گے۔انکو سب سے زیادہ مشکلات پارلیمنٹ کے اندر سے ہیں۔اسی لئے موجودہ بجٹ کے پاس ہونے میں مشکلات کا بہت تذکرہ رہا اور اپوزیشن نے آل پارٹیز کانفرنس بھی کی جس کا ایجنڈا پہلے تو حکومت کو گھر بھیجنا تھا لیکن پھر بجٹ کو پاس ہونے سے روکنے تک محدود ہو گیا۔ بجٹ پاس ہو گیا اور اپوزیشن کی ایک بھی کٹوتی کی تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اب اپوزیشن عوامی رابطہ مہم پر شاید نکلے جو انکا حق ہے لیکن اصل مسئلہ معیشت کی بحالی اور ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ‘جس کے لئے ساری تگ و دو ہو رہی ہے۔آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہم مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہے ہیں، ہم سب کو مشکل حکومتی اقدامات کی کامیابی کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہونگی۔ یہ ایک قوم بن کر کام کرنے کا وقت ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میثاق معیشت کی بات کر رہی ہیں ، حکومت بھی اس تجویز سے متفق ہے تو پھر مسئلہ کہاں ہے۔کچھ لوگوں کو اپنی ذات سے آگے سوچنے کی عادت ہی نہیں ہے اس لئے وہ اپنی ہی جماعت کے صدر کی دی ہوئی میثاق معیشت کی تجویز کا مذاق اڑا رہے ہیں۔اس ذہنیت کو سمجھنے کے لئے معروف امریکی مصنف اورٹی وی پروڈیوسر فل ککّ کے قوم کے لیڈر کے حوالے سے مشاہدے کا ذکر بہت مدد کرے گا۔ فل ککّ کے مطابق کسی بھی لیڈر کا وژن اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا وہ کلچر ہوتا ہے جو وہ معاشرے میں فروغ دیتا ہے۔ اگر وہ زہریلا کلچر پیدا کر دیتا ہے تو بہترین وژن بھی قوم کی حالت نہیں بدل سکتا۔زہریلے کلچر کی نشانیاں فل کک کے بقول درج ذیل ہیں؛ عوام کو عزت نہ دینا اورانہیں چھوٹا ثابت کرنا،طویل حکمت عملی کی بجائے دبائو ڈال کرفوری نتائج حاصل کرنا، اقربا پروری،عدم مساوات اور بے انصافی کو فروغ دینا،مخالفین کو ہراساں کرنا،غریب کے لئے درد دل نہ ہونا، بد دیانتی کی حوصلہ افزائی کرنا، میرٹ اوراخلاقیات کا نہ ہونا۔ فل ککّ کے بقول عظیم لیڈر ان بیماریوں کا علاج کرتا ہے وہ معاشرے کو طاقت دیتا ہے اور انکی حوصلہ افزائی کر کے اپنے وژن کو فروغ دیتا ہے۔وہ لوگوں کی بات سنتا ہے، عام آدمی کو طاقتور بناتا ہے، محنت کی قدر کرتا ہے، دیا نتداری کو پسند کرتا ہے۔ عمران خان کو بطور وزیر اعظم جہاں بیشمار چیلنجوں کا سامنا ہے وہیں ایسے کلچر کا خاتمہ بھی بہت اہم ہے جو لوگوں میں تفریق پیدا کرتا ہو اورمعاشی خرابیوں کی بھرمار کے ساتھ طبقاتی کشمکش سے ملک کو اس نہج پر پہنچا دے جہاں لوگ باہم دست و گریباں ہو جائیں۔وہ بار بار مدینہ کی ریاست اور غریب کو اوپر اٹھانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن جب تک یہ زہریلے کلچر کے بانی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتے وہ ملک اور حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہینگے۔ان قائدین کے حالیہ بیانات اور انکے حواریوں کا رویہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ اپنی لوٹ مار کا مال بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ حکومت تو انکے نشانے پر ہے ہی وہ قومی سلامتی کے اداروں کو بھی کسی صورت بخشنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگلے چند دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی ۔بظاہریوں دکھائی دے رہا ہے کہ آخری معرکے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور صف بندی جاری ہے۔ایک طرف معاشی صورتحال کی وجہ سے سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک رکھنے والی حکومت اورادارے ہیں اور دوسری جانب اپنے مال و زر کو بچانے کے لئے ہر حد سے گزر جانے والی قوتیں۔ کون کہاں کھڑا ہے یہ اب واضح ہوتا جا رہا ہے۔ ٹکرائو کب ہو گا یہ فریقین کی ہمت اور اپنے مقصد کے ساتھ اخلاص پر منحصر ہے۔ ایک بات طے ہے کہ ملکی سلامتی کی خاطر کھڑے ہونے والے آنکھ جھپکنے کو تیارنہیں ہیں۔ وہ نہ پیچھے ہٹیں گے اور نہ کسی دھونس اور دھمکی کو خاطر میں لائیں گے۔ دوسری طرف والے البتہ کسی بھی مفاہمتی پیشکش پر ڈھیر ہو سکتے ہیں اس سلسلے میں کوششیں اور افواہیں بہت ہیںلیکن اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔