مسلمانوں کے تئیں مغرب دقت نظر سے عاری ہے۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مغربی پالیسی سازکشمیریوں کے حق خودارادیت، انکی مزاحمتی تحریک ،انکی جدوجہد، انہیںدرپیش مصائب وآلام سے نابلدہے اوربے خبر ہیں تو یہ صرف محض سادہ لوحی ہو گی بلکہ یہ سمجھنا ایک تاریخی غلطی بھی ہے۔ البتہ اس بات کوپوری طرح سمجھ لیناچاہئے کہ مغرب کے جمہوری اقدار اور اسکی ترتیب دی ہوئی جمہوریت ٹھیک اس مقام پر اپناکام بندکرکے بیٹھ جاتی ہے جہاں مسلمان ظلم و استبداد ادکی چکی میں پس رہے ہوں۔ کئی مسلمان خطوں میں جنگ اور خانہ جنگی کا کھیل کھیلنے والامغرب جنوبی ایشیامیں بھی اسی کھیل کوجاری رکھے ہوئے ہے وہ یہاںہرگز امن نہیں چاہتاایک یہ کہ پاکستان اورکشمیرکاسواد اعظم مسلمانوں پرمشتمل ہے دوسرایہ کہ اس کی تگ و تاز اس پر ہے کہ اسکی آتشیںاسلحے کی منڈی مندی کی شکارنہ ہو۔ وہ کشمیرکے آسان اورسادہ مسئلے کوحل کرانے پر آمادہ نہیں ہے کیونکہ پھر اس خطے میں حریفانہ کشاکش کاخاتمہ ہوجاتاہے اورانکے بمبارطیاروں کو خریدنے کی بھارت کوضرورت نہیں ہوگی اورانکی منڈی چل نہیں سکے گی ۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ بھارتی جبر کے خلاف برطانوی اراکین پارلیمان کا آواز بلند کرنا اس لئے خوش آئند ہے کہ شاید برطانیہ کواپنی غلطی کااحساس ہوچکاہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیرمیںبھارتی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں پھیلنے والی تباہی اور انسانی آلام کاذمہ دار برطانیہ بھی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کشمیربرطانیہ کا پیدا کردہ مسئلہ ہے اور اس کے حل کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ برطانیہ پر عائد ہوتی ہے۔آخری برطانوی وائس رائے لارڈ مونٹ بیٹن نے گانگریس کے ساتھ سازش رچاکر کشمیرکوطوفانوں کے سپرد کردیاکہ آج تک وہ اس قعرمذلت سے نہیں پایا۔ کشمیری پچھلے 73برس سے ایسی زندگی جی رہے ہیں جو ان کا مقدر نہیں تھی۔ برطانوی اراکین کی طرف سے حمایت کا مظاہرہ تقاضا کرتا ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک کو تنازع کشمیر سے آگاہ کرتے ہوئے انہیں اس سلسلے میں سکیورٹی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق تنازع کا حل ڈھونڈنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس لئے برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیرپرآوازاٹھائیں اورکشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں کشمیریوں پر انسانیت سوز مظالم کیا بات کرکے یہیں ختم نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان اراکین کوچاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے نظرآنے والی ایک موومنٹ چلانی چاہئے۔لازم ہے کہ یہ اراکین مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کے لیے اپنی حکومت پر اثر و سوخ استعمال کریں اوروہ دنیاکی قضاوقدر کے مالک بنے بیٹھے حکمرانوں اور دیگر اداروں کو خطوط لکھیں اورانہیں کشمیرمسئلے کے حل کے لئے سامنے آنے کوکہیں۔ دنیاکوبتایاجائے کہ اس مسئلے کاحل نہایت سادہ اور آسان ہے اوروہ یہ کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد کی شرط عائد کی جائے ۔دنیاکواس امرکااحساس دلایاجائے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وہ اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق کام نہیں کر رہی ۔ حقیقت پسندی اورانصاف کی بات یہ ہے کہ دنیاکے مردہ ضمیروںکویہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کشمیرسلگ رہا ہے اور دنیا یہ تماشا دیکھ رہی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورت حال پر دنیا کواپنی مجرمانہ خاموشی ٹوڑ دینی چاہئے ۔ کشمیر ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اور کوئی اس کی فکر نہیں کر رہا۔ آخر کیوں کشمیر کی آزادی دنیا کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔وہ دنیا جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتی ہے وہ یہاں انسانوں کے حقوق سے کیوں لاپروا اور بے خبر ہو جاتی ہے اور یہ کچھ آج سے نہیں ہو رہا بلکہ دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ ہندوستان پرمسئلہ کشمیرحل کرانے کے حوالے سے پر عالمی سطح پر جس قسم کی دبائو کا سامنا ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہورہا۔ کشمیر میں اس وقت ہندو آباد کاری زورو شور سے جاری ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھر پور کوشش کی جا رہی ہے۔اس لئے کشمیرفوری توجہ چاہتاہے دنیاکو اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔آخر کب تک ان کی صدا اقوام عالم کے مردہ ضمیروں کے سامنے بے اثر ہوتی اوربے توقیربنتی رہے گی ۔ جمعرات 14جنوری 2021کولندن کے ویسٹ منسٹر ہال میں جموں و کشمیر کی سیاسی صورتحال پرمنعقدایک مباحثے میںبرطانوی وزیر انصاف سمیت 10ارکان پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کی بے بسی پرکھل کرگفتگوکی اور بھارتی ظالمانہ پالیسیوں پر کڑی تنقید کرنے کے ساتھ برطانوی حکومت پر بھی مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے مظالم پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے زور دیا۔ان کاکہناتھاکہ5 لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو قید کر رکھا ہے۔ انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں مشاہدے میں آئی ہیں،کشمیری مسلمانوں کو اسپتالوں میں جانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ان اراکین کاکہناتھاکہ بھارتی فوجی خواتیں کو ان کی گھر کی دہلیز پر ہراساں اور ان کی عصمت پر حملے کر رہے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ برطانیہ نے ہمیشہ خواتین کے تحفظ کی بات کی ہے۔کیا مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اراکین پارلیمنٹ کے بیانات ان کے اقدامات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر سے پناہ کی درخواست کرنے والی خواتین کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔مقبوضہ کشمیر میں ہلاکتوں کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ان کاکہناتھاکہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اظہار پر پابندی ہے اوروہاںمودی سرکار کیخلاف بات کرنا دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے۔ان کاکہناتھاکہ مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق کا سنگین مسئلہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تشدد اور جبری گمشدگیاں عام ہیں۔ مغربی میڈیا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر خاموش ہے۔ ان کاکہناتھاکہ مقوضہ علاقے میں ریپ اور جنسی تشدد کے اندوہ ناک واقعات ہو رہے ہیں، ہمیں مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم کے خلاف متحد ہونا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیربھارت کاکوئی اندرونی معاملہ نہیں،ہم بھارت کے اس نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہیں۔ہم بھارت کے خلاف نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اسے ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔انسانی حقوق ایک عالمی معاملہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار بھارت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے لیے بھارت نے اپنے قانون میں ردوبدل کیا۔بھارت مقبوضہ کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کر رہا ہے۔ڈیموگرافی کو تبدیل کر کے بھارت ایک ممکنہ ریفرنڈم کے مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ ممبران کا کہنا تھا کہ 2020 سے سیاسی و انسانی حقوق کے لیے بات کرنے والے ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کوعدالتی و قانونی کارروائی کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔ان کاکہناتھاکہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ تنازع باعث تشویش ہونا چاہیے۔ ان کاکہناتھا کہ 2015 سے 2020کے دوران برطانیہ نے 50ارب پائونڈ مالیت کا اسلحہ بھارت کو بیچا۔یہی اسلحہ کشمیریوں کا خون بہانے میں استعمال ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں مذہبی آزادی پامال کی جا رہی ہے۔ برطانوی حکومت کو بین الاقومی مبصرین کی مقبوضہ علاقے تک رسائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ انکاکہناتھاکہ کشمیر سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے،گذشتہ 30برس سے 95ہزار سے زیادہ کشمیریوں کو قتل کیا جا چکا ہے،مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتے ہیں۔