18 اکتوبر کی سہ پہر جب ہمارا جہاز نیویارک کے جان ایف کینیڈی ائیر پورٹ پر اترا تو ٹھنڈی ہوا درختوں سے پتے گرا رہی تھی اور گرے ہوئے زرد پتوں کو بکھیر رہی تھی ۔شام دراز ہونے والی تھی اور درختوں اور دیواروں کی پناہ گاہوں میں چھپے سائے دبے پاؤں باہر نکل رہے تھے۔ احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آگیا: خورشید کو جب زوال آیا ہر چیز نے قد بڑھا لیا ہے سورج نکلتا تو ہمارے مشرق سے ہے لیکن فی زمانہ مغرب سے نکلا ہوا سورج نصف النہار پر ہے۔ غروب ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔کہتے ہیں کہ اب یہ سنہری گیند رو بہ زوال ہے ۔ دل نے سوچا کہ جو عروج صدیوں میں مکمل ہوا اسے زوال ہوتے ہوتے بھی تو صدیاں چاہئیں ۔ لیکن پھر خیال آیا کہ یہ بھی لازمی نہیں.ہمارے سامنے کیسے کیسے عروج مند زوال کا شکار ہوئے اور اس طرح کہ ان کے عروج کی بات بھی اب افسانے سے زیادہ نہیں لگتی: خیال رکھ کہ یہاں بے گماں نکلتا ہے ترے عروج کا رستہ ترے زوال میں بھی لیکن بھئی کسی کے زوال سے ہمیں کیا واسطہ ۔سچ یہ ہے کہ کسی کے زوال کا بھی دل خواہش مند نہیں ہاں خواہش مند ہے تو اپنے اور اپنے لوگوں کے عروج کا۔کسی کے زوال سے ہمارا کیا لینا دینا۔ میرا امریکہ آنا مشاعروں اور ادبی تقریبات کے سلسلے میں ہے اور سفر ہے بھی طویل یعنی تقریبا45 دن کا۔یعنی ایک طرح کی شاعرانہ چلہ کشی۔امریکہ کی ایک بڑی ادبی تنظیم علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کے روح رواں ، واشنگٹن ڈی سی کے ڈاکٹر عبداللہ کی دعوت بلکہ پر اصرار دعوت پر ہمارا آنا ہوا ہے ۔ہم مشرقیوں کو امریکہ آنا پڑے تو مغرب کا رخ کرنا پڑتا ہے لیکن ہمارے معاملے میں امریکہ پہنچ کر بھی مغرب کا یہ رخ ختم نہیں ہوگا۔ مشرقی ریاستوں میں نیویارک سے شروع ہونے والا یہ سفر بارہ ریاستوں اور بہت سے شہروں مثلاـ کلیو لینڈ، شکاگو، ،برمنگھم اٹلانٹا، ڈیلس، ہیوسٹن ،جیکسن ول، واشنگٹن ڈی سی، سنسناٹی، سالٹ لیک سٹی وغیرہ سے ہوتا ہوا لاس اینجلس کیلیفورنیا یعنی امریکہ کے مغربی ساحل پر ختم ہوگا۔ہر شہر میں مشاعرے اور ادبی تقریبات ہیں جہاں اردو دنیا کے سخنوروں اور شعر شناسوں سے ملاقات رہے گی۔45دن اسی آوارہ گردی یا شریفانہ الفاظ میں جہاں گردی میں گزریں گے۔ نیویارک میں خزاں اور سردیوں کی آمد آمدہے۔وہ دن آرہے ہیں جب سبز پتے گلابی نارنجی اور آتشی ہوجاتے ہیں اور خزاں کی بہار ہر طرف گل کھلاتی پھرتی ہے۔ زرد، شہابی، عنبری ،برگ خزاں بکھر گئے اشک بہائے پیڑ نے ،روح سے بوجھ اتر گئے نیویارک میں آج کل دن چمکیلا اور سرد ہے اور رات روشن اوریخ۔پانچ ڈگری سنٹی گریڈ میں جیکٹ کے بغیر رات کو نکلنا مشکل ہے۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍشاعر طرح دار رحمان فارس اور ہندوستان سے دل دارشاعرسردار خوشبیر سنگھ شاد اس سفر میں ساتھ ہیں ۔ یعنی خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے تین ۔چنانچہ مزے کی گزر رہی ہے ۔نیویارک کا ایک خوبصورت حصہ لانگ آئی لینڈ کہلاتا ہے ۔ اس لانگ آئی لینڈ کا ایک علاقہ ہیکس ول (Hicksville) کے نام سے مشہور ہے ۔ ہمارا قیام یہیں ایک ہوٹل میں ہے ۔ نیویارک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک ریاست کا نام بھی ہے اور شہر کا نام بھی. نیویارک شہر پانچ انتظامی حصوں میں منقسم ہے جنہیں Boroughs کہتے ہیں.یہ حصے مین ہیٹن بروکلین کوئینز دی برانکس اور سٹیٹ آئی لینڈ کہلاتے ہیں.بنیادی طور پر یہ شہر بحر اوقیانوس اور دریائے ہڈسن کے اتصال پر واقع تھا جو بعد میں پھیلتا گیا اور اب دنیا کے گنجان آباد ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔1624 میں ولندیزی یعنی ڈچ تاجروں نے لوئر مین ہیٹن میں تجارتی کوٹھی بسائی جسے نیو ایمسٹرڈیم کہا گیا۔1664میں جب یہاں انگریزوں کا تسلط ہوا تو انگلینڈ کے شاہ چارلس دوم نے یہ علاقہ اپنے بھائی ڈیوک آف یارک کو بخش دیا چنانچہ اسے نیو یارک کہا جانے لگا. یہی ڈیوک آف یارک بعد ازاں انگلینڈ کا بادشاہ بنا اور جیمس دوم کہلایا۔1785 سے 1790 تک نیویارک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا دارالحکومت بھی رہا.اور اس وقت تک یہ امریکہ کا سب سے بڑا شہر تھا۔ خیر نیویارک کی تاریخ تو لمبے چوڑے بیان کا تقاضا کرتی ہے ، ایک کالم میں کتنا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ اسی نیویارک بندرگاہ سے مشرقی سمت میں 190 کلومیٹر لمبا اور 23 کلو میٹر چوڑا ایک جزیرہ نما بازو لانگ آئی لینڈ کہلاتا ہے اور رہائش اور کاروبار کے لیے نسبتا"مہنگا علاقہ سمجھا جاتا ہے.لانگ آئی لینڈ میں کم و بیش 80لاکھ لوگ رہتے ہیں. جان ایف کینیڈی اور لا گارڈیا ائیرپورٹس یہیں واقع ہیں.اس لانگ آئی لینڈ پر ویلنٹائن ہکس نے 1834 میں یہاں کے گاؤں خرید کر انہیں بستیوں میں تبدیل کیا اورہکس ول( Hicksville) کے نام سے یہ علاقہ بسایا.نیویارک کی تاریخ پڑھیں تو میر یاد آجاتے ہیں۔میر صاحب نے کہا تھا نا کہ: بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے وہ دلی کے ساتھ ساتھ نیویارک جیسے شہروں پر بھی صادق ہے۔لیکن ان بستیوںکے بسانے میں ہند و پاک کی گندمی نسل کا جو حصہ ہے و ہ کسی طرح بھی کم نہیں ہے ۔چنانچہ ہکس ول کے اطراف میں پاکستانی اور ہندوستانی ہوٹلوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے ۔ہر قسم کا دیسی کھانا نہ صرف یہ کہ میسر ہے بلکہ تہذیبوں کے اختلاط سے نئے تجربے بھی ہوئے ہیں جن میں اکثر خوشگوار ہیں ۔ ہمارے میزبانوں نے جن پیارے دوست کو ہماری مہمان نوازی پر مامور کیا ہے ان کا نام سروش کریم ہے۔ یہ نام کم کم سننے میں آتا ہے ۔وہی غالب والا سروش۔ غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے ۔ آج جب سروش ہمیں نماز جمعہ کے لیے لانگ آئی لینڈ کے اسلامک سنٹر اور مسجد میں لے گئے تو یہ سنٹر دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی ۔حسن انتظام ، نمازیوں کی تعداد اور سنٹر کے اطراف میں مسجد اور سنٹر کے ملیتی گھر جن سے اس سنٹر کا انتظام چلتا ہے ۔پاکستانی ، ہندوستانی اور عرب مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی چنانچہ مسجد کے لوئر گراؤنڈ لیول پر بھی مشکل سے جگہ مل سکی ۔لوگ اپنے گھروں سے کھانا بنا کر صاف ستھری پیکنگ میں لائے ہوئے تھے جو مناسب نرخوں پر فروخت کیے جارہے تھے اور یہ ساری آمدنی مسجد اور سنٹر کو دی جارہی تھی ۔ مرد، عورتوں بچوں کی بڑی تعداد یہاں موجود تھی ۔یہ سنٹرایک کمیونٹی کلب کا بھی کام کر تا ہے اور حفظ قرآن اور کنڈر گارٹن کے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا بھی ۔ ایک خوشگوار ماحول میں بہت سے پاکستانیوں سے مل کر دل خوش ہوگیا۔سچ یہی ہے کہ کام کرنے کی لگن ہو تو ہر مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔ یہ زمینیں خریدنا ، اس پر عمارت بنانا اور اس کے اطراف کے گھر خرید کر اس سنٹر کی ملکیت کردینا بڑی محنت اور بڑے صبر کا ثمر ہے ۔کام کرنے والے باتیں نہیں کام کرتے ہیں اور یہ سنٹر اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ جیٹ لیگ( jetlag )کا برا ہو کہ یہاں پہنچنے کے 24 گھنٹے کے بعد بھی سونے اور جاگنے کا ہی نہیں کھانے پینے کا معمول بھی پاکستان کے مطابق چل رہا ہے.دماغ اپنی چلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بدن کا اپنا الگ دماغ ہے وہ اس کا الٹ رخ اختیار کرتا ہے۔خیر بھئی یہ ہمارے لیے کون سی نئی کشمکش ہے۔ساری عمر دل اور دماغ کی لڑائیاں دیکھتے گزری ہے۔لڑ بھڑ کر ٹھیک ہوہی جاتے ہیں ۔ بدن اور دماغ بھی آخر سمجھوتہ کر ہی لیں گے۔ باہر بارش شروع ہوگئی ہے اور اب آنکھیں موندنے کا وقت آگیا ہے تو صاحبو! مغرب کے عین مشرق سے ابھی اتنا ہی۔