میں اس قول کو بار بار پچھلے کئی سال سے نقل کرتا آیا ہوں۔ ایک زمانے میں اسے میں غلطی سے ایک فرانسیسی معیشت سے منسوب کرتا رہا ہوں‘ مگر جلد ہی یہ بات جان گیا کہ یہ اس شخص کا قول ہے جس نے گویا انگلش لغت نویسی کو بھی ادب بنا دیا۔ سموئیل جانسن کو عام طور پر ڈاکٹر جانسن کہا جاتا ہے۔ہمارے ایک استاد ان کی ڈکشنری کی مشکل مشکل تعریفیں ہمیں سنا سنا کر ہنسایا کرتے تھے کہ بعض اوقات لفظ معنی سے آسان ہوتا تھا اور اس کی تشریح مشکل۔ اسے اب ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک شعر بھی پڑھا ہے۔ میں نے بقائمی ہوش و حواس ان سے پہلی بار کوئی شعر سنا ہے۔ اس پر بھی سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ ان کے ہم جولیوں میں کون ایسا آ گیا ہے جو انہیں ایسا شعر یاد کرا سکتا ہے۔ ڈاکٹر جانسن کا جو قول انہوں نے دہرایا ہے‘ وہ بہت دلچسپ ہے اور مجھے بھی پسند ہے۔ تاہم اس میں ایک وضاحت کی ضرورت ہے۔ یہ قول انہوں نے مودی کی ذہنیت کی وضاحت کرتے ہوئے استعمال کیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حب الوطنی بدمعاشوں کی آخری پناہ گاہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مودی ہندوستان سے اپنی انتہا پسندانہ محبت کے ہاتھوں جو کچھ کر رہاہے‘ وہ کوئی بدمعاش ہی کر سکتا ہے۔ وہ ہندوستان کو مضبوط نہیں کر رہا‘ بلکہ انسانیت پر ظلم کر رہا ہے۔ دراصل یہاں حب الوطنی کا لفظ عمران خاں نے مودی کی نیشنلزم کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ مبادا یہ سمجھ لیا جائے کہ حب الوطنی ایک منفی جذبہ ہے‘ کسی نے حب الوطنی اور نیشنلزم کو بہت خوبصورتی سے الگ الگ بیان کیا ہے۔ عرض کئے دیتا ہوں۔ نیشنلزم کی بنیاد دوسروں سے نفرت پر استوار ہے جبکہ حب الوطنی خود سے محبت سکھاتی ہے‘ بلکہ عمومی طور پر محبت کے جذبے پر اس کی بنیاد ہے۔ مودی محب وطن ہے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مغربی قوم پرستی کا سب سے بڑا ناقد تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں سے قوم پرستی کو ابھرتے دیکھا تھا۔ نیشن سٹیٹ کے اس تصور کو تشکیل پاتے دیکھا تھا جس نے بالآخر دنیا کو بدصورت بنا کر رکھ دیا۔ کچھ تصورات ایسے ہیں جنہوں نے بظاہر مثبت طور پر جنم لیا‘ مگر نتائج ان کے منفی تھے۔ نیشنلزم سے بھی زیادہ ہیومن ازم نے یہ قیامت ڈھائی۔ ہیومن ازم انسان دوستی کے بجائے انسان پرستی میں بدل گیا اور اس نے کائنات کے مرکز میں خدا کی جگہ انسان کو لا بٹھایا‘ ایک نئے بت کی پوجا شروع کر دی۔ اس بت پرستی ہی کے خلاف اقبال نے کہا تھا: ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے اقبال ہمارے ہاں ان باریکیوں سے خوب واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلامیان ہند کی مستقبل کی سمت درست رہنمائی کی۔ یورپ میں سرمایہ پرستی سے تنگ آئی ہوئی انسانیت نے نئے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ایک کمیونزم تھا‘ دوسری راہ سوشلسٹ نیشنلزم کی تھی۔ یہ دوسرا فلسفہ تھا جسے فاشزم کہا جاتا ہے۔ ہٹلر اور ان کے ساتھیوں نے پہلی جنگ عظیم کی شکست کا داغ دھونے کے لئے یہ راستہ اختیار کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے ایک صدی ضائع کر دی۔ آج ٹرمپ ’’پہلے امریکہ‘‘ کے نام پر جو کچھ کر رہا ہے‘ وہ اس سے کم نہیں۔ یہ امریکہ سے محبت نہیں‘ باقی دنیا سے مخاصمت ہے۔ مودی کا بھی یہی حال ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کا ایک بڑا طبقہ اس کے نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتا‘ بلکہ اس کے ہاتھوں بھارت کی تباہی دیکھنا ہے۔ اقبال کی ابتدائی زمانے کی جو نظمیں وطن کی محبت کے بارے میں ہیں‘ وہ نظمیں بتاتی ہیں کہ وطن سے سچی محبت کہتے کسے ہیں۔ اگر اس پر چلنا ہے تو اس کی حدود کیا ہیں اور اس کی سمت کیا ہے۔ جس چیز کی اصل نفرت پر رکھی گئی ہو‘ اس پر جس قدر خوبصورت خول بھی کیوں نہ چڑھا دیا جائے‘ وہ خوبصورت نہیں ہو سکتی۔ لفظ بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی غلط سمت لے جاتے ہیں۔ میں تو ڈاکٹر جانسن کے ساتھ ہوں اور اس معاملے میں عمران خاں کا بھی ہم نوا ہوں۔ وضاحت تو اس لئے کی کہ لفظ کے شر سے محفوظ رہنا بھی ضروری ہے۔ وزیر اعظم نے ایک شعر بھی پڑھا۔یہ مرے دوست مرحوم عدیم ہاشمی کا شعر ہے اور ستر کے حالات میں لکھا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے اسے ایک بار اپنے جریدے کا سرورق بھی بنایا تھا: مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے اس زمانے کی عدیم ہاشمی کی دو چار غزلوں نے ادبی دنیا میں ایک آگ سی لگادی تھی۔ حلقہ ارباب ذوق کے ایک اجلاس میں جب اس نے یہ غزل پڑھی: ان موزیوں پہ قہر الٰہی کی شکل میں نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم تو ایک سناٹا سا چھا گیا۔ یہ شعر ایک نشتر تھا۔ حلقے میں ان دنوں وہ لوگ چھائے ہوئے تھے جو پاکستان کے مقبول قومی بیانئے کے مخالف تھے۔ ایک طویل خاموشی کے بعد ان کا سب سے معتبر شخص بولا: میں پریشان ہو گیا ہوں‘ فاشزم اپنی شدید ترین شکل میں اس غزل میں ظاہر ہوتی ہے۔ بہرحال بحث ہوئی اور ترکی بہ ترکی جواب دیا گیا۔ عمران خاں نے جو شعر سنایا ہے‘ وہ بھی انہی دنوں کا ہے۔ دل خوش ہوا کہ عمران نے کوئی عامیانہ شعر نہیں پڑھا۔ ایک عمدہ شعر سنایا۔مگر ایک عرض ہے اس شعرکو آپ نے اپنے سیاسی مخالفوں کے لئے استعمال کیا ہے۔ آپ کو حق ہے اس کا استعمال زیادہ مناسب ہوتا اگر یہ شعر بھی مودی کے لئے استعمال ہوتا ‘بھارت کی پالیسیوں کو للکارنے کے لئے برتا جاتا۔ اس کا اصل استعمال ہے بھی وہی اس پر میں بحث نہیں کروں گا۔ ہمارے نواز شریف یا احسن اقبال نے کیا جبر ناروا کرنا تھا کہ آپ اس سے مفاہمت نہیں کریں گے۔ جبرناروا بھی کوئی اتنی ہلکی چیز نہیں ہے۔ اس کے لئے آدمی کو کم از کم مودی ہونا پڑتا ہے اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ خوامخواہ سربکف نہیں ہوا جاتا۔ اس کے لئے بھی حالات ضروری ہیں۔ لڑنے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جس کے خلاف لڑ رہا ہے وہی اس کا اصل دشمن ہے‘ ورنہ ہوائوں میں تلواریں چلانا کسی ڈان کہوٹے کا کام ہو سکتا ہے۔ اصل بہادر وہ نہیں جو پن چکیوں پر حملہ کرتے پھرے‘ اسے اپنا درست ٹارگٹ تلاش کر کے اسے ہدف بنانا ہے۔ خدا لگتی کہیے ہمارا اصل ہدف کون ہے۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ یہ شعر کشمیری حریت پسندوں کی طرف سے بھارت سامراج کے نام پر ہے۔ زیادہ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے۔