سیاست بے رحم ہے، اتنی بے رحم کے ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچانے سے بھی نہیں ہچکچاتی۔اپنی تختی لگانے اور دوسرے کی تختی کو روکنے کی خواہش میں یہاں کئی مرتبہ نوے فیصد مکمل منصوبوں کو بھی ادھورا چھوڑ دیا گیا کہ کہیں فریق مخالف کی تختی آویزاں نہ ہو جائے یا اسے اس کا کریڈیٹ نہ مل جائے ۔ سیاست کے لئے عوام کو نقصان پہنچانے کا چلن تو عام ہے مگر اپنے سیاسی مفادات کے لیے ریاست کو نقصان پہنچانا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ اہلیانِ آزاد کشمیر آجکل روتے نظر آتے ہیں ۔ تبھی وہ ہمیشہ وفاق میں حکومت کرنے والی جماعت کو ووٹ کرتے رہے ہیں کہ فنڈز میں کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی اور ان کا کام چلتا رہے گا۔ پچھلے سال ہونے والے انتخابات میں بھی اہل کشمیر نے یہی کیا تھا ۔ تحریک انصاف کو جتوا کر واضح اکثریت کے ساتھ اس کی حکومت بنوائی تھی۔ مگر پھر رجیم چینج ہوا اورسیاسی مفادات کو ترجیح دینے والے سیاستدان حکمران بن گئے ۔ آزاد ریاست ِجموں وکشمیر کے وزیر خزانہ عبدالماجد خان سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ایک مالیاتی معاہدہ موجود ہے جس کی رو سے پاکستان نے ہر سال ٹوٹل ٹیکس کولیکشن کا 3.6 فیصد ادا کرنا ہوتا ہے ۔ اسے کشمیر کا غیر ترقیاتی بجٹ کہا جاتا ہے جس کی مدد سے ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنز کی ادائیگی، ادویات ، گندم اور زرعی اجناس کی خرید سمیت دیگر اہم امور سر انجام دیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال پاکستان میں ہونے والی ٹیکس کولیکشن میں سے 3.6 فیصد کے حساب سے کشمیر کو 74 ارب روپے ادا کیے گئے ۔ اس مرتبہ چونکہ زیادہ ٹیکس جمع ہوا تھا لہذا کشمیر حکومت زیادہ پیسوں کی آس لگائے بیٹھی تھی۔ مگر اضافہ تو درکنار، مفتاح اسمعیل نے اپنی حکومت کی ایما پر آزاد کشمیر کے غیر ترقیاتی بجٹ میں 14 ارب کا کٹ لگا دیا۔یوں 74 ارب کی بجائے پوری ریاست چلانے کے لیے انہیں صرف60 ارب روپے ادا کیے گئے۔ ریاست آزاد کشمیر کو دوسری رقم ترقیاتی فنڈز کی مد میں ملتی ہے جو ایک فارمولے کے تحت 28 ارب روپے ہے ۔ اس رقم سے سڑکوں کی تعمیر، سیوریج اور واٹر سکیموں پر کام کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال عمران خان کی حکومت نے آزاد کشمیر کو 28 ارب کی بجائے 6 ارب اضافے کے ساتھ 34 ارب روپے ادا کیے تاکہ آزاد کشمیر میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ مگر اس حکومت نے پہلے تو یہ کیا کہ ترقیاتی فنڈ کی رقم28 ارب سے کم کر کے 26 ارب کئے اور اس میں سے بھی صرف 2 ارب 60 کروڑ روپے ادا کیے ۔ اب بتائیے گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ آزاد کشمیر حکومت نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں ایک وفد اسلام آباد بھیجا جووزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر قمر زمان کائرہ اورمفتاح اسمعیل سے ملا۔ ریاست کے نمائندوں نے اپنی مالی مشکلات، مالیاتی معاہدے اور ضروریات کی روشنی میں اپنا حق مانگنے کے لیے اصرار کیا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔وقتی طور پر زبانی وعدہ تو کر لیا گیا لیکن بعد میں مفتاح اسمعیل نے انہیں خط لکھ بھیجا کہ ہم مالی مشکلات کے باعث آپ کو پیسے نہیں دے سکتے۔ آزاد کشمیر حکومت کا موقف ہے کہ اگر نالہ لئی کے لیے 70 ارب روپے رکھے جا سکتے ہیں تو کشمیر کے حصے کے 15 ارب کیوں ادا نہیں ہو سکتے۔ کشمیر کے بجٹ پر کٹ لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت جس نے اپنے ملازمین سے تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کا وعدہ کیا تھا،فنڈز روک لیے جانے کی وجہ سے وہ اپنا وعدہ وفا نہ کر سکی۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ آزاد کشمیر میں تمام83 ہزار سرکاری ملازمین ہڑتال پر چلے گئے ۔حکومت کو مجبورا وفاق سے پیسوں کے حصول کے بغیر ہی پچھلے مہینے 15فیصد اضافے کو نوٹیفائی کرنا پڑا۔ اب اضافہ ہو تو گیا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ اگر حکومت پاکستان نے کشمیر کے حصے کے پیسے ادا نہ کیے تو انہیں ادھار لے کر یہ ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی جس سے ریاست کی معیشت مزید خراب ہو گی۔شاید وفاقی حکومت چاہتی بھی یہی تھی کہ کشمیر میں تحریک انصاف کی حکومت مالی مشکلات کے باعث عوام میں غیر مقبول ہو جائے۔ تحریک انصاف کی آزاد کشمیر حکومت کا الزام بھی یہی ہے کہ ان کے بجٹ میں کٹ حکومت پاکستان نے مالی مشکلات کی وجہ سے نہیں بلکہ اگلے انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے لگایا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کے باعث اگر عوامی نمائندے سڑکوں ، گلیوں اور سیوریج کے وعدے پورے نہیں کریں گے تو اگلی مرتبہ عوام ان سے ناراض ہوں گے۔ یوں موجودہ اپوزیشن اس کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔ اس صورتحال کا ایک پہلو اور بھی ہے۔جب یہ خبریں لائن آف کنٹرول کے پار پہنچتی ہیں تو دشمن ملک کو جگ ہنسائی کا موقع ملتا ہے۔ آپ سوچیئے اگر متاثر ہونے والے سرکاری ملازمین میں سے دو چار ہزاربھی اگر اسلام آباد آ کر بیٹھ جاتے تو ہمسایہ ملک آزاد کشمیر کے باشندوں سے روا رکھے جانے سلوک پر کیسے کیسے تبصرے کرے گا۔ اس سب کے بعد آزاد کشمیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششیں بھی شروع ہو گئی ہیں ۔ اگرچہ حکمران اتحاد33 اور اپویشن اتحاد 20 ارکان پر مشتمل ہے مگر اس کے باوجود خرید وفروخت کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں ۔ریاست میں عدم اعتماد ایک بڑا موضوع بنا ہوا ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف پُر اعتماد ہے کہ ان کے لوگ بکنے والے نہیں ہیںلیکن پھر بھی بکائو مال تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ویسے ان حالات میں اپوزیشن کے لیے بہتر یہی ہے پاکستان والا تجربہ دوہرا کر اپنا سر پکڑنے سے بہتر ہے وہاں ایسا تجربہ نہ کیا جائے۔مشورہ ہے ،باقی مرضی تو سیاسی اہلیان تجارت کی اپنی ہے۔