امریکہ کے موقر جریدے اٹلانٹک کے تازہ شمارے میں شائع ایک مضمون نظر سے گزرا جس کا عنوان تھا ’امریکی صدر ٹرمپ ایک ٹوٹا ہوا شخص‘ ۔ مضمون نگار نے ٹرمپ کے فوکس نیوز جو کہ ایک قسم کا امریکی صدر کا عملی طور پر ترجمان ہے ‘پر ایک مشہور اینکر پرسن کرس ویلس کو انٹرویو دیتے ہوئے اس کے آخری سوال جو کہ محض فرمائشی سوال تھا اور امریکہ کے روایتی میڈیا کی طرح ہرگز سخت نہیں تھا یہ کہ آپ کا صدارتی دور کیسا رہا ؟صدر ٹرمپ نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ابھی میں نے صدارتی انتخاب جیتا بھی نہیں تھا مجھ پر چوروں اور ٹھگوں نے غیرقانونی انکوائریوں کے پنڈورا باکس کھول دئیے۔اٹلانٹک کے مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ٹرمپ یقینی طور پر ٹوٹے ہوئے ،اکتائے ہوئے اور بہت ہی ناخوش شخص ہیں، وہ اپنے خود ساختہ گلے شکووں میں گھرے ہوئے اور بہت چڑچڑے ہو چکے ہیں۔ایک سیدھے سادے سوال کے جواب میں انہوں نے شکایات کے انبار لگا دئیے۔ ٹرمپ نے انٹرویو میں یہ تک گلہ کیا کہ سابق صدر اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن ان کی انتخابی مہم جوئی کی جاسوسی کر رہے تھے جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اگر کوئی اور دور ہوتا تو یہ لوگ پچاس پچاس سال کے لیے جیل میں ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی زودرنج ،سیماب پا اور منتقمانہ طبیعت کے مالک ہیں اور ان کی ضد، ہٹ دھرمی اور اہلیت کی کمی کی وجہ سے امریکہ میں کورونا وبا آگ کی طرح پھیلی،اس کے علاوہ سیاہ فام جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے خلاف جس طرح پورا امریکہ سراپا احتجاج بن گیا اور ان مظاہروں کے خلاف ٹرمپ نے جو انتہائی سفاکانہ رویہ اختیار کیا تھا اس کے نتیجے میں نظریہ آرہا ہے کہ وہ نومبر آغاز میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپنے مدمقابل امیدوار جوبائیڈن کے ہاتھوں بری طرح پٹ جائیں گے اور یہی غم انہیں کھائے جا رہا ہے اور ایک جھوٹے شخص کی طرح وہ اپنی تمام کوتاہیوں ، غلطیوں اور نااہلیوں کا ذمہ دار اپنے مخالفین کو قرار دے رہے ہیں۔ مضمون نگار نے سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن جو امریکہ کی تاریخ میں قدامت پسند ہونے کے باوجود ایک انتہائی کامیاب صدر سمجھے جاتے ہیں، اگرچہ وہ بھی ٹرمپ کی طرح ریپبلکن تھے، انہوں نے بڑے پتے کی بات کی تھی جو دنیا بھر کے حکمرانوں پر صادق آتی ہے۔ ریگن پر سیاسی مخالفین تابڑ توڑ حملے کرتے رہتے تھے لیکن وہ ان کا بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیتے تھے۔ ان کے سٹاف کے ایک رکن نے جب ان سے گلہ کیا کہ آپ اپنے دشمنوں کو ترکی بہ ترکی جواب کیوں نہیں دیتے تو ریگن نے ڈانٹتے ہوئے کہا ایک بات بہت کا خیال رکھنا ’’ہم ایک دوسرے کے مخالف ہیں دشمن نہیں‘‘۔ اگر یہ سبق دنیا بھر کے سیاستدان پلے باندھ لیں اور اختلافات کو ذاتیات پر نہ لائیں تو بہت سے گنجلک معاملات سلجھنا شروع ہوجائیں گے۔ دراصل ٹرمپ کا اقتدار بنیادی طور پرکورونا وائرس کی مس ہینڈلنگ کی نذر ہوگیا ہے لیکن اس معاملے میں ٹرمپ تنہا نہیں ہیں۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بھی کورونا وباکے حوالے سے غلط فیصلے کرنے کی بنا پر جب بھی برطانیہ میں عام انتخابات ہوئے خمیازہ بھگتیں گے۔رواں برس مارچ کے مہینے میں برطانوی کورونا اور صحت عامہ کے حوالے سے ٹیم کے سربراہ پیٹرک ویلنس نے کہا سکول اور مارکیٹس کھلی رہیں گی کیونکہ ہمارا مقصد ہے کہ کویڈ 19 سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ’ہرڈ ایمیونٹی‘ پیدا کی جائے۔ ان کے اس نظریے کے مطابق برطانیہ کی 60 فیصد آبادی اگر کورونا سے متاثر ہو تو ان میں خود بخود اس مہلک بیماری سے لڑنے کی مدافعت پیدا ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں برطانیہ کی چار کروڑ آبادی کورونا کا شکار ہو جائے یہی اس کا علاج ہے۔ بعداز خرابی بسیار اس جاہلانہ تھیوری کو برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جب خود کورونا کے مریض بن کر آئی سی یو میں پہنچ گئے اور بڑی مشکل سے جانبر ہوئے ترک کیا گیا اور لاک ڈاؤن پر پوری طرح عمل شروع کیا گیا اور اب تک برطانیہ میں45 ہزار600 اموات ہو چکی ہیں اور وہاں متاثرہ افراد کی تعداد 3 لاکھ کے قریب ہے ۔ دنیا میں قریباً ہر ملک میںکورونا کا گراف نیچے جانے کے بعد لاک ڈاؤن کو بتدریج ختم کیا گیا۔ اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال ہی لے لیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے، اس وائرس کے ہاتھوں بے بس ہو گئے ہیں۔اب ان کا پہلے جیسا کروفر نہیں رہا۔ اس کے باوجود مودی عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ہمسایہ ممالک سے پنگے لینے سے باز نہیں آ رہے۔ چین کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنے کی ناکام کوشش میں مودی کو منہ کی کھانا پڑی ۔پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر بھارتی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔یہ واضح ہے کہ کورونا وائرس نے مودی کا شالا نیچے کر دیا ہے اور اس کے منی سپر پاور بننے کے خوابوں کو خاک میں ملا دیا۔ اگلا الیکشن انہیں بھی مہنگا پڑے گا۔ دنیا کے کئی ممالک میں یہی صورتحال ہے۔ اس کے برعکس جرمنی کی چانسلر اینگلامرکل جو یہ اعلان کر چکی ہیں وہ دوبارہ الیکشن نہیں لڑیں گی اس بحران کے دوران اپنی قائدانہ اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے جرمنی میں دوبارہ مقبول ترین لیڈر بن گئی ہیں۔ یہی صورتحال نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک میں ان کے حکمرانوں نے عوام کو اس بحران میں سنبھالا ۔ سوال یہ ہے کہ اس معاملے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی کورونا کے بارے میں گومگو کی ابتدائی پالیسی کے باوجود بالآخر کورونا بحران سے موثر طور پر نمٹا جا رہا ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق کورونا سے متاثرہ کیسوں کی شرح 0.8 فیصد فی لاکھ تک گر گئی ہے۔ صرف دو ہفتے پہلے یہ شرح1.6 فیصد تھی۔ یقیناً اموات کی شرح بھی اب بہت کم ہوگئی ہے۔اب متاثرہ افراد کی تعداد 2 لاکھ ساڑھے 70 ہزار اور اموات 5800 کے لگ بھگ ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 ء کو سامنے آیا تھا جس کے بعد مارچ کے آخر تک مجموعی کیسز 2 ہزار کے قریب جبکہ اموات 26 تھیں۔ اپریل میں متاثرہ افراد ساڑھے 16 ہزار سے زیادہ اور اموات 385 تک تھیں۔اسی طرح مئی میں کیسز71 ہزار اور اموات 1500سے تجاوز کر گئیں۔جون میں متاثرہ افراد کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا اور ایک ماہ میں مجموعی تعداد 2 لاکھ 12 ہزار اور اموات 4300 سے بڑھ گئیں۔ رواں ماہ گزشتہ روز تک59 ہزار کے قریب کیسز اور 1410 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ یہ بہت اچھی خبر ہے جس کا کریڈٹ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو بھی جاتا ہے لیکن خان صاحب کے اقتدار کے لئے کورونا سے پہلے اور مابعد نہ ختم ہونے والا اقتصادی بحران سب سے بڑا خطرہ ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت گورننس کے معاملے میں مسلسل پٹ رہی ہے۔ ملک میں سیاسی خلفشار اور انتشار عروج پر ہے، اپوزیشن تحریک چلانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی اختلافات ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ خان صاحب کو ریگن کے اس قول’’ہم ایک دوسرے کے مخالف ہیں دشمن نہیں‘‘ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ کورونا پر کسی حد تک قابو پانے کے باوجود ان کی حکومت کا مستقبل یکسر محفوظ نہیں۔