سقراط کوجمہوری نظامِ حکومت کا مخالف مانا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں اس پر سب سے بڑا حملہ کارل پاپر کی جانب سے کیا گیا ہے جس نے اسے اپنی مشہور زمانہ کتاب "آزادہ معاشرہ اور اسکے دشمن " میں اسے غیر جمہوری سوچ کا امام قرارد یا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سقراط جمہوریت کو ایتھنز کے وجودکے لیے خطرہ سمجھتا تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ ریاستی معاملات پر تجارت پیشہ طبقے کی اجارہ داری تھی اور یہ طبقہ جمہوریت کے لبادے میں اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہا تھا ۔ معاشرہ دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگ چکا تھا اور عدل وانصاف جمہوری اصولوں کے تابع۔ یوں عدل کا معاملہ شعلہ بیان مقرروں کے ہاتھ میں چلاگیا تھا جو اپنی جادو بیانی کے زور پر ظالم اور مظلوم کا تعین کررہے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ریاست کی مالی ضروریات کو نہیں سمجھتا تھا اور تجارت کا قائل نہیں تھا بلکہ اسکا اصرار تھا کہ تجارت کو معاشرتی ضروریات کے تابع ہونا چاہیے اور اس کے لیے ضرور ی ہے کہ زرداروں اور سرمایہ داروں کو ریاستی معاملات سے دور رکھا جائے ۔ اس حوالے سے اس کی سوچ واضح تھی کہ منافع کے اصول پر ترتیب دیا گیا نظام عزت اور شرافت کا معیار دولت اور پیسے کو قرار دیتا ہے نہ کہ عدل اور اس سے جڑی اقدار کی پاسداری کو،جس سے معاشرے میں ہم آہنگی اور تواز ن پیدا ہوتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ تجارت پر استوار سیاسی نظام ایک نہ ایک دن ریاست کو جنگ کی طرف لے جائے گا ۔ اسے یونانیوں کی حب الوطنی پر شک نہیں تھا بلکہ تجارت پیشہ طبقے کی فطری کمزوریوں پر تحفظات تھے کہ اگر اسے کھلی چھوٹ دے دی جائے تو اسکا نشانہ عدل ہوگا اور یوں یہ قومی اتحاد کو پارہ پارہ کر دے گا۔ سقراط پر نئے خداوں پر یقین رکھنے اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی بنیاد پر مقدمہ چلا ۔ اس نے اپنے دفاع میں واضح کیا کہ اسے امیر طبقہ اپنے انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے لیکن جیور ی نے "معمولی اکثریت" کی بنیاد پر ستر سالہ بوڑھے کو زہر کا پیالہ پینے کی سزا دے سنادی۔ خیر خواہوں نے اس کے قید سے فرار کے انتظام کیے لیکن اس کا کہنا تھا کہ اس کی موت اس کی جیت کانشان بنے گی۔ جو بعد از مرگ سقراط اس کا مقد ر بنی۔ شاید بوڑھا سقراط یہ جانتا تھا کہ دیر ہوچکی تھی اور حالات میں تبدیلی کی توقع بے سود تھی اور وہ صرف اپنا " فرض" پورا کررہا تھا۔ ضروریات زندگی کی تکمیل کیلئے انسانی معاشرے ایک دوسرے کے محتاج ہیں توتجارت ناگزیر ہے ۔ اس حوالے سے ریاست کی ضرورت اور اہمیت مسلمہ ہے کہ امن و امان قائم رکھتی ہے تاکہ تجارتی ما ل کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ہو۔ ان خدمات کے عوض یہ تجارت پر ٹیکس لگاتی ہے۔ معلوم تاریخ میں ریاست کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں کبھی بھی دو رائے نہیں پائی گئیں۔ اس امر پر بھی اتفاق موجود ہے کہ ریاست کی بقا معاشرے میں توازن پیدا کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے ، یہ توازن ہنر مند طبقے اور پیداواری وسائل کے بے دریغ استحصال سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی توازن کے پیش نظر فیصلہ ہوتا ہے کہ کونسا نظام حکومت اپنایا جائے۔ بادشاہت یا پھر جمہوریت ، اس حوالے سے بحث زمانہ قدیم سے موجود ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت ہے اور ہر بجٹ کاروبار دوست بنتا ہے۔ امیر طبقے سے ٹیکس وصولی میں ناکامی، اورلازمی اشیائے ضروریہ (بجلی ، ڈیزل ، پٹرول گھی، دالوں) پر ٹیکسوں کی بھرمار، صحت اور تعلیم کے بجٹ میں کمی اور مقامی حکومتوں کے قیام میں ہچکچاہٹ، ایک پختہ روایت بن چکی ہے۔ ایوان بالا ہو یا ایوان زیریں، پارلیمانی انتخابات میں پیسے کا استعمال اور اسکے نتیجے میں جو لوگ آئین سازی جیسے اہم کام کے لیے منتخب ہوکر آتے ہیں ان سے یہ توقع فضول ہے کہ یہ لوگ قومی وقار اور تشخص کے لیے ڈھنگ کی آئین سازی کریں گے۔ جمہوریت کے فوائد چند خاندانوں سے آگے نہیں جائیں گے۔ ٹیکسوں کا بوجھ عام عوام پر ہے اور رہیگا، عام انتخابات وقت پر ہونگے لیکن مقامی حکومتوں کے قیام میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کی جائیگی۔ صوبے وفاقی محصولات میں ببانگ دہل حصہ لیں گے لیکن اپنی حدود میں منصفانہ تقسیم کے عمل سے گریز کریں گے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ جنگ ہے جو اشرافیہ نے ملک اور عوام کے ساتھ شروع کررکھی ہے۔ پچھلے تیرہ سال میں یہ ثابت ہوچکا ہے۔ اگر سامراجی دور کی باقیات کی موجودگی میں جمہوریت کامیاب ہوسکتی تو پچھلے ستر سال اس تجربے کی کامیابی کے لیے کافی تھی۔ ہمسایہ ملک بھار ت اگر کامیاب رہا ہے تو اس لیے کہ وہاں سے سب سے پہلا کام جاگیرداری نظام کے خاتمے کا کیا گیا۔ تو ہی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکا ہے۔ زمانہ قیامت کی چال چل چکا اور ہم ہیں کہ خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نہین نکل پارہے۔ زمین نیچے سے کھسک رہی ہے لیکن نظریں ہیں کہ آسمان پر سے نہیں ہٹ پارہیں۔ حال ہی میں " تبدیلی " سرکار نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ رواں مالی سال بقیہ تین مہینوں میں محصولات پونے دو کھرب روپے تک بڑھائی جائیں گی۔ اس سلسلے میں بجلی مہنگی کرنے جبکہ پٹرول پر تیس روپے فی لیٹر محصول جاری رکھنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے اپنی پانچویں جائزہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح 1.5فیصدرہے گی جبکہ اگلے دوسالوں میں یہ شرح بالترتیب چار اور پانچ فیصد تک " ہو سکتی " ہے۔ رواں مالی سال پاکستانی معیشت دباؤ میں رہے گی ،مالیاتی خسارہ 7.1 فیصد تک رہے گا، قرض اور مجموعی قومی آمدنی کا تناسب 87.7 فیصد تک رہے گا۔اگلے سال مہنگائی بڑھنے کی شرح 8.7فیصد جبکہ اس سے اگلے مالی سال میں یہ کم ہوکر " 8فیصد" ہوسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال میں محصولات کی شرح معیشت میں نصف فیصد بڑھی جس میں زیادہ کردار پٹرولیم محصولات کا تھا۔ کورونا کی وجہ سے بجلی کی محصولات کم رہے جس کے ازالے طور پر پہلے مرحلے میں ایک روپے 95 پیسے بجلی مہنگی ہوگی،دوسرے مرحلے میں مزید ایک روپے 63 پیسے۔عالمی مالیاتی ادارے نے" ہدایت "کی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس نظام کو آسان اورسہل بنانے کے لیے وفاق اور صوبے مل کرکام کریں اور اصلاحات لائیں جبکہ حکومت نے یقین دہائی کرائی ہے کہ سٹیٹ بینک کی خودمختاری پرپارلیمنٹ سے قانون سازی ’’بروقت‘‘ کرائی جائیگی!