مملکت خداداد پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس لیڈر نے بھی پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہے‘قدرت نے اس کا انجام اچھا نہیں کیا۔ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف جس طرح پاکستان کے قانونی اداروں کو چکمہ دے کر جھوٹی بیماری کا سہارا لے کر پاکستان سے فرار ہوئے اور اب لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں اور پاکستان دشمن عناصر سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔آج کل کافی پریشانی کا شکار ہیں۔حکومت برطانیہ نے ان کے ویزے میں مزید توسیع سے انکار کر دیا ہے۔یہ نواز شریف خاندان اور ن لیگ کے لئے ایک بڑا جھٹکا ہے جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے والا معاملہ ہے۔ برطانیہ میں ان کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔انہیں قطعاً توقع نہیں تھی کہ برطانیہ کی حکومت ان سے اس طرح منہ پھیر لے گی۔برطانوی حکومت کا پرانا ریکارڈ بھی ایسا ہے کہ وہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کے لٹیرے حکمرانوں کے لئے جنت کا درجہ رکھتی ہے۔شاید ہی کسی لٹیرے حکمران کو برطانیہ میں عدم تعاون کی شکایت ہوئی ہو۔ اب دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔یا تو حکومت برطانیہ واقعی اپنا ریکارڈ بہتر کرنا چاہتی ہے کیونکہ یہ منفی شہرت کسی بھی حکومت کے لئے باعث مسرت نہیں ہو سکتی کہ ان کے ملک کو دنیا کے بھر کے لٹیروں اور کرپٹ حکمرانوں کی جنت قرار دیا جائے دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایسے حکمرانوں کو ایک جھٹکا دے کر انہیں بلیک میل کیا جائے اور اپنی مکمل اور غیر مشروط اطاعت پر مجبور کیا جائے۔ ایم کیو ایم کے بانی کی صورت میں یہ ماڈل ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت خطے کے حالات بھی ایسے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کو پاکستان سے سی پیک اور چین کی طرف جھکائو کی وجہ سے کافی شکایات ہیں۔اگر وہ پاکستان کی کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کواپنے ڈھب میں لا سکیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی ۔ ن لیگ کے ذرائع کے مطابق نواز شریف کے وکلا پہلے ہی امیگریشن ٹربیونل میں اپیل دائر کر چکے ہیں اس اپیل سے انہیں چند ماہ کی مہلت تو ہر صورت میں مل جائے گی۔اگرچہ اپیل میں جانے کے لئے ان کے پاس خاطر خواہ دلائل موجود نہیں ہیں۔وہ علاج کی غرض سے برطانیہ گئے تھے لیکن ابھی تک وہ علاج کے قریب بھی نہیں گئے۔عدالت کی شرائط کے مطابق انہوں نے اپنی میڈیکل رپورٹس اور ٹیسٹ کے نتائج بھی عدالت یا حکومت پاکستان کو مہیا نہیں کئے۔برطانیہ میں ان کے روز مرہ کے معمولات بھی ان کی تسلی بخش صحت کی غمازی کرتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ امیگریشن ٹربیونل میں کس نئی دلیل کو سامنے لاتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے لئے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اسے ویزہ کی توسیع سے انکار ہو جائے لیکن ایک اہم ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کو ویزہ سے انکار ہو جانا واقعی ایک ناقابل یقین واقعہ ہے۔ اگر ٹربیونل نے بغیر کسی نئی دلیل کے ان کے حق میں فیصلے دے دیا تو پھر پاکستان کی حکومت کو نواز شریف کی لندن میں مصروفیات پر خصوصی توجہ دینی ہو گی سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ کئی پاکستانی رازوں کے امین ہیں اور اگر وہ غیر ملکی طاقتوں کی مکمل گرفت میں آ گئے تو وہ پاکستان کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔جہاں تک ان کے علاج کا تعلق ہے تو مریم نواز پہلے ہی برملا اعتراف کر چکی ہیں کہ اگر انہیں انصاف کی گارنٹی دی جائے تو وہ ایک دن میں واپس آ سکتے ہیں۔بہرحال اب مریم اورنگزیب دوبارہ ان کے واپسی کو علاج کے مکمل ہونے سے مشروط کر رہی ہیں۔ظاہر ہے یہ ایک سیاسی بیان ہے۔ان کی صحت کا تعین تو برطانیہ کے ڈاکٹر ہی کریں گے اور وہاں جعلسازی اتنی آسان نہیں جتنی یہاں پاکستان میں ہے۔ اپیل مسترد ہو جانے کی صورت میں نواز شریف کے پاس چند محدود آپشنز رہ جائیں گی۔ایک تو یہ کہ وہ سیاسی پناہ کی درخواست دے دیں۔یہ آپشن ان کے لئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہو گا۔دوسرا آپشن ان کے لئے کسی تیسرے ملک کی طرف کوچ کرنا ہو گا۔وہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ان کا کوئی حکمران دوست انہیں قوانین کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ملک میں آنے کی اجازت دے دے۔ ان کے دوستوں میں سعودی عرب‘یو اے ای‘قطر اور بھارت کے حکمران شامل ہیں۔ یقینا وہ بھارت کی آفر قبول نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے لئے اور ان کی پارٹی کے لئے نہایت ضرررساں ہو گا۔لیکن اب بھی ان کے لئے سب سے باعزت اور آسان آپشن پاکستان واپس آنا ہے۔ اگر وہ پاکستان واپس آ جائیں اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیں تو یہ ان کے لئے اور ان کی پارٹی کی یکجہتی کے لئے گیم چینجر ہو سکتا ہے ان کی قیادت کی اندھی تقلید کرنے والے لوگ انکی شخصیت میں نیلسن منڈیلا اور امام خمینی تلاش کرتے ہیں۔مریم نواز کا تو کہنا ہے کہ اب وہ پارٹی کے صدر یا قائد کے درجے سے بہت بلند تر ہو چکے ہیں اور وہ امام کے درجے پر فائز ہیں۔اگر نواز شریف نیلسن منڈیلا اور امام خمینی کی خصوصیات اور جرأت کا پانچ فیصد بھی دکھا سکیں تو وہ پاکستان آ کر سیاست کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔اگر تین دفعہ کا منتخب وزیر اعظم اور ایک بڑی پارٹی کا قائد ملکوں ملکوں بھاگتا پھرے اور اسے کہیں جائے امان نہ ملے تو یہ عبرت کا مقام نہیں تو اور کیا ہے۔ نواز شریف حکمرانی کی ایک طویل اننگ کھیل چکے ہیں اور بے پناہ دولت کے مالک ہیں۔اب تو انہیں تاریخ میں اپنے مقام کا تعین کرنا ہے۔یہ ان کے فیصلے پر منحصر ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں یا ایک مفرور مجرم کے طور پر دربدر ہونا پسند کرتے ہیں۔ان کے مقام کا تعین مستقبل کا مورخ کرے گا ،نہ کہ مریم نواز‘شاہد خاقان عباسی اور رانا ثنااللہ۔ آخر میں وزیر اعظم سے درخواست کہ مانا وہ ملک کی معیشت کو راتوں رات ترقی نہیں دے سکتے۔وہ کرپٹ سیاستدانوں کو بھی سزا نہیں دلوا سکتے کیونکہ عدالتیں ان کے ماتحت نہیں ہیں۔کیا وہ چار چار بچیوں کے اغوا‘بچوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی‘دن دیہاڑے قتل کی وارداتوں اور سٹریٹ کرائمز کے سامنے بھی بے بس ہیں۔کیا وزیر اعظم پولیس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے دعوے سے دستبردار ہو چکے ہیں۔کیا یہ مظلوم قیامت کے دن ان کا دامن نہیں پکڑیں گے۔